گزشتہ رات دیر گئے پنجاب اسمبلی کے 12:30 بجے ہونے والے اجلاس میں پرویز الٰہی نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے لیا۔ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے 186 اراکین صوبائی اسمبلی نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا لیکن یہ سب کیسے ممکن ہوا؟
دسمبر کے آخری ہفتوں میں جب پرویز الٰہی گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کے حکم پر اعتماد کا ووٹ لینے سے گریزاں تھے تو ان کے علم میں تھا کہ ان کے پاس مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہے۔ ایوان میں اپنے بندے پورے کرنے کے لئے انہیں جو وقت درکار تھا وہ لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے نے انہیں میسر کر دیا۔
گزشتہ دو ہفتوں میں جہاں مسلم لیگ ن کی قیادت اپنے تئیں کی گئی تیاری پر شادیانے بجا رہے تھے وہیں پاکستان تحریک انصاف اور چوہدری پرویز الٰہی اپنی گیم سیٹ کر رہے تھے۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں انہیں پہلی کامیابی اس وقت ملی جب متحدہ وحدت المسلمین کی قیادت نے عمران خان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد پنجاب اسمبلی میں متحدہ وحدت المسلمین کی واحد رکن، سیدہ زہرا نقوی کا ووٹ پھر سے پرویز الٰہی کی طرف چلا گیا۔ سیدہ زہرا نقوی 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر مخصوص نشستوں پر ایم پی اے بنیں لیکن انہیں یہ سیٹ متحدہ وحدت المسلمین اور پی ٹی آئی کے مابین معاہدے کے تحت ملی تھی۔
دوسری بڑی کامیابی پرویز الٰہی کو تب ملی جب انہوں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے آزاد رکن صوبائی اسمبلی چوہدری بلال اصغر وڑائچ کو پاکستان تحریک انصاف میں شامل کروا دیا۔ بلال وڑائچ 2008 میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر ایم پی اے رہ چکے تھے۔ 2018 میں مسلم لیگ ن کی حمایت سے آزاد رکن منتخب ہونے کے بعد وہ پی ٹی آئی کے ایم این اے ریاض فتیانہ کے کہنے پر صوبائی اسمبلی میں آزاد حیثیت میں پی ٹی آئی کی حکومت کو سپورٹ کرتے رہے۔
2021 میں جب پنجاب میں سیاسی ہلچل شروع ہوئی تو بلال وڑائچ مسلم لیگ ن کے اتحادی بن گئے اور وزیراعلٰی حمزہ شہباز کی کابینہ میں سپورٹس اور یوتھ افیئرز کا قلمدان بھی ان کے پاس تھا۔ اعتماد کے ووٹ کی جوڑ توڑ میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی۔
اسکے علاوہ بھی کم از کم 12 ایسے ممبران صوبائی اسمبلی ایسے ہیں جنہیں پرویز الٰہی اور ان کے فرزند کی خصوصی کوشش سے دوبارہ سے تحریک انصاف کے امیدوار کو سپورٹ کرنے پر آمادہ کیا گیا۔
مسلم لیگ ق کے ایک رہنما نے نیا دور کو بتایا کہ ' پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے بہت سمجھداری سے معاملے کو نمٹایا۔ ہر ایم پی اے سے فرداً فرداً بات چیت کی گئی تاکہ انہیں واپس لانے کے لئے کچھ آفر کیا جا سکے۔ کسی کو ٹکٹ اور کسی کو ترقیاتی کام کی آفر دی گئی'۔ رہنما نے مزید کہا کہ 'آپ جانتے ہیں کہ چوہدری وضع دار لوگ ہیں لیکن وفاقی حکومت نے ان کے گھر کی خواتین کو کیسز میں ملوث کرنے کی جو حرکت کی۔ اس سے چوہدری پرویز الٰہی سخت غصے میں آ گئے۔ یہ انکی ریڈ لائن تھی۔ جس کے بعد انہوں نے اعتماد کے ووٹ میں کامیابی کو اپنا مشن بنا لیا تھا'۔
رات گئے ہونے والی ووٹنگ میں پاکستان تحریک انصاف کے 5 اراکین صوبائی اسمبلی نے اپنی پارٹی کی ہدایت کے باوجود پرویز الٰہی کو ووٹ نہیں دیا۔ اسکے بارے میں مسلم لیگ ن کے ایک سابق صوبائی وزیر نے نیا دور کو بتایا کہ ' ہماری تیاری مکمل تھی۔ ہم نے 5 بندے توڑ لئے تھے۔ 10 سے ہمارے رابطے بہت آگے جا چکے تھے۔ اسکے بعد ان کے لئے اعتماد کے ووٹ کے نمبر پورا ہونا تقریباً نا ممکن تھا لیکن پھر گیم بدل گئی۔' سابق صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ ' ہماری مرکزی قیادت کے لئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ اپریل سے لےکر اب تک ہماری ساری سیاسی چالیں آخری وقت پر ناکام ہو جاتی ہیں۔ کہیں نہ کہیں تو کوئی ایسا ہے تو نہیں چاہتا کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت واپس آئے۔'