برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس دنیا کے 10 بہترین نظاموں میں شامل ہے

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس دنیا کے 10 بہترین نظاموں میں شامل ہے
چند روز قبل اِپسوس نامی ادارے کی سروے رپورٹ سے پتہ چلا کہ برطانوی عوام کو اس سال بھی سب سے زیادہ غرور اپنے قومی ادارہ صحت پر ہے۔ جبکہ برطانوی ثقافت، تاریخ، جمہوری اقدار، شاہی خاندان اور فوج پر ناز سب ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ سروے میں شامل 72 فیصد شرکا کے نزدیک این ایچ ایس کا وجود برطانوی معاشرے کے لئے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ 80 فیصد اس کے بجٹ میں اضافہ کے حق میں ہیں۔

دراصل برطانیہ میں صحت کی جدید، مفت اور بلاتاخیر سہولیات کی فراہمی ہی قومی غیرت و حمیت کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ سکاٹ لینڈ کی آزادی اور برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی دونوں ریفرنڈم میں این ایچ ایس سے متعلق اعداد و شمار نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ایک سرمایہ دار ملک میں سوشلسٹ ماڈل پر قائم این ایچ ایس کسی عجوبہ سے کم نہیں۔ ملازمین کی تعداد کے لحاظ سے یہ ناصرف برطانیہ کا سب سے بڑا ادارہ ہے بلکہ دنیا بھر کے 10 بڑے آجروں میں بھی شامل ہے۔ ہم ان تاریخی عوامل کا جائزہ لیں گے جو آج سے 75 سال قبل این ایچ ایس کے قیام پر منتج ہوئے۔

انگلستان میں غربت سے متعلق قوانین

صحتِ عامہ کی بحث ان سماجی رویوں پر نظر ڈالے بنا ممکن نہیں جو کسی معاشرے میں غریب اور امیر کے بارے میں پائے جاتے ہیں۔ قرونِ وسطیٰ میں انگلستان پر مذہب اور کلیسائی حکام کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ ایک تہائی قابلِ کاشت زمین کی ملکیت کے ساتھ چرچ سب سے بڑا جاگیردار بھی تھا۔ غربت، بیماری، وبا، جرم، سزا سب کے متعلق چرچ کے پاس بنی بنائی وضاحتیں اور تاویلات موجود تھیں۔ انجیلی تعلیمات سے ہٹ کر کچھ سوچنے کی اجازت نہیں تھی۔ کلیسا ہی لنگر خانے اور خیرات گھر چلاتا تھا۔ اس طرح غربت کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئی اور تین میں سے ایک انگریز بھکاری بن گیا۔ 1531 میں گداگری کے لائسنس جاری ہونے لگے۔ اجازت نامے کے بغیر بھیک مانگنے والے کے لئے سخت سزا تھی۔ اسے پھانسی پر بھی لٹکایا جا سکتا تھا۔

پھر جب ہنری ہشتم نے چرچ کے اختیارات کو محدود کرنا شروع کیا تو کافی تنازع بنا۔ مسیحی خانقاہیں ختم کر دی گئیں۔ ہنری ہشتم کی بیٹی الزبتھ اول کے زمانے میں لوکل باڈیز کو مزید بااختیار کر دیا کہ وہ صاحبانِ ثروت کے ضمیر کو آواز دے کر ان کی جیب سے مزید رقوم نکلوائیں تاکہ خیرات گھر یا آلمز ہاؤسز چلائے جا سکیں جن میں بچوں، بوڑھوں، عورتوں کے ساتھ معذور اور ذہنی و جسمانی بیمار سب ایک ساتھ زندگی بسر کرتے۔

یاد رہے 300 سال تک نہ جدید نفسیات سامنے آئی اور نہ ہی ٹیکس کا کوئی مربوط نظام بن سکا۔ ہمارے وہ وژنری قائدین جو لنگر خانوں کو غربت کا حل بتاتے ہیں، شعوری طور پر سولہویں صدی کے انگلستان میں رہتے ہیں۔

1834 میں غربت کا ایک نیا قانون نافذ ہو گیا جس کے تحت غربت کو ایک اخلاقی مسئلہ اور بے روزگاری کو ہڈ حرامی کے ہم معنی قرار دیا گیا۔ اس قانون کے تحت ہر یونین میں ورک ہاؤسز بنائے گئے۔ مفلوک الحال خاندانوں کو توڑ کر مختلف ورک ہاؤسز میں ٹھونس دیا جاتا تھا جہاں وہ مسلسل ایک یونیفارم پہننے اور ایک ہی قسم کی غذا کھانے پر مجبور ہوتے۔ ساتھ میں ان سے اعصاب شکن مشقت کرائی جاتی۔

آئرلینڈ میں نوکری کے دوران ہم نے ایسے قبرستان دیکھے جہاں چھوٹی بڑی قبروں کی شکل میں ورک ہاؤسز میں ہونے والے مظالم اور غیر انسانی سلوک کی کہانیاں بکھری ملتی ہیں۔ ڈبلن کے سینٹ جیمسز اسپتال سمیت اکثر آئرش اسپتال انہی ورک ہاؤسز کی باقیات ہیں جو دراصل جیل خانے تھے جہاں سے نکل بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔

یورپ میں فلاحی ریاست کی ابتدا

انیسویں صدی کے اواخر میں ترقی یافتہ ممالک بہت بڑی تبدیلیوں کی زد میں آئے۔ جرمن فلسفی فریڈرک اینگلز نے مانچسٹر میں صنعتی لیبر کے حالات پر اپنا مقالہ لکھ کر انکشاف کیا کہ دوسرے برطانویوں کی نسبت مزدور طبقے میں جوانی میں اموات بالخصوص متعدی امراض میں مرنے کی شرح بہت اونچی ہے۔ اسے کمیونٹی میڈیسن کا پہلا مضمون سمجھا جاتا ہے۔ مختلف ناموں سے کمیونسٹ پارٹیاں بڑے یورپی شہروں میں فعال تھیں۔ 1871 میں پیرس میں انہوں نے چند ماہ تک عارضی حکومت بھی قائم کر لی تھی جبکہ امریکہ میں مزدور اپنے اوقات کار متعین کرنے کے لئے سراپا احتجاج تھے۔

ایسے میں جرمنی کے چانسلر بسمارک نے پورے یورپ کو سرپرائز دیتے ہوئے صنعتی کارکنان کے لئے صحت کی انشورنس، حادثے کا معاوضہ اور پنشن جیسی انقلابی اور بے نظیر اصلاحات متعارف کرائیں لیکن ساتھ ہی اس نے کمیونسٹوں پر سخت پابندیاں بھی عائد کر دیں۔ برطانیہ سمیت مغربی ممالک میں جو ویلفیئر سٹیٹ ہم آج دیکھتے ہیں، اس کا بانی بسمارک ہی ہے۔

رضاکار اسپتال

ورک ہاؤسز میں ضعیفوں اور بیماروں کے لئے مخصوص کمرہ یا کمرے انفرمری کہلاتے۔ برطانیہ میں بہت سے بڑے اسپتال آج بھی انفرمری ہیں۔ ان میں ڈھونڈ کر ایسے ڈاکٹر بھرتی کئے جاتے جو کم از کم تنخواہ پر کام کرنے پر راضی ہوں۔ نرسنگ کا الگ شعبہ اس وقت تک وجود میں نہیں آیا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے رضاکار یا والنٹری اسپتال تھے۔ مثال کے طور پر لندن کا مشہور بارٹس اسپتال تو قرون وسطیٰ سے چلا آ رہا تھا جبکہ گائز اینڈ سینٹ تھومس، مانچسٹر رائل انفرمری، ڈبلن کا سینٹ ونسنٹ اور ایڈنبرا رائل انفرمری سب اسی طرح کے شفا خانے تھے جنہیں بڑے بڑے بینکرز، سٹاک بروکرز، پرنٹرز اور پبلشرز، سیٹھوں، خاندانی امرا وغیرہ کی خیرات سے چلایا جاتا۔

انیسویں صدی کا یہی ماڈل آج کل پاکستان میں آغا خان اسپتال، شوکت خانم، ایس آئی یو ٹی، انڈس، جے ڈی سی، الخدمت، کڈنی سینٹر سمیت سینکڑوں اسپتالوں میں دکھائی دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستانی حکومتیں ان اداروں کے لئے بھاری بجٹ مختص کرتی ہیں، انہیں مفت زمین اور ٹیکس اور ڈیوٹی سے استثنیٰ تفویض کرتی ہیں، برطانیہ میں بھی کنگز فنڈ نامی ادارہ قائم کر کے خیرات اور عطیات کو منظم کیا گیا۔ برطانیہ کے اکثر میڈیکل کالجز رضاکار اسپتالوں سے منسلک تھے اور طب کے ارتقا میں ان کا کردار مسلمہ ہے۔ صاحب حیثیت افراد ان اسپتالوں کے بجائے پرائیویٹ شفا خانوں میں جا کر علاج کرانے کو ترجیح دیتے۔ ہمیں علم نہیں کہ جس طرح پاکستانی خیراتی تنظیمیں اپنے ذرائع آمدنی اور اخراجات آڈٹ کرا کے مشتہر نہیں کرتیں، اسی طرح والنٹری اسپتالوں کا حساب کتاب بھی شفاف تھا یا نہیں!

نیشنل ہیلتھ انشورنس

بیسویں صدی کی ابتدا میں جب یورپ میں دو بلاک بن گئے تو برطانیہ میں بحث چھڑ گئی کہ آیا جرمنی سے سارا مقابلہ کاروبار، صنعتوں اور اسلحے کے انبار کی حد تک رہے گا یا اس میں عام انسانوں کے حقوق کا بھی کچھ حصہ ہو گا۔ لہٰذا 1911 میں نیشنل ہیلتھ انشورنس ایکٹ بنایا گیا جس کے تحت تنخواہ دار مزدور کی تنخواہ کا کچھ حصہ منہا کر کے اسے بیماری، بے روزگاری اور بعد از ریٹائرمنٹ پنشن کی مد میں جمع کیا جانے لگا۔ اس نظام کا سب سے بڑا نقص یہ تھا کہ اس سے صرف ایک تہائی مزدور استفادہ کر سکتے تھے۔ ان کے بیوی بچے اس میں شامل نہ تھے۔

این ایچ ایس کا قیام

دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی یہ خیال زور پکڑ گیا کہ اتنی قربانیوں کے بعد اب عوام کا حق بنتا ہے کہ وہ ایک فلاحی ریاست کے ثمرات سے لطف اندوز ہوں۔ جن پانچ بڑی برائیوں کا ذکر ہونے لگا جو ملکی ترقی کی راہ میں حائل تھیں ان میں بیماری، بے کاری، تنگ دستی، جہالت اور غلاظت شامل تھیں۔ 5 جولائی 1948 کو قومی ادارہ صحت قائم ہوا جس کا مقصد عوام کی تمام میڈیکل، ڈینٹل اور نرسنگ ضروریات پوری کرنا تھا۔ تمام افراد خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، مرد ہوں یا عورت؛ اس تک رسائی کر سکتے تھے۔ اور یہ کوئی خیراتی ادارہ نہیں بلکہ عوام کے دیے ہوئے ٹیکسوں کے ذریعے چلنا تھا۔

برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم ہر فرد کے لئے تنخواہ کے تناسب سے نیشنل ہیلتھ انشورنس کی مَد میں ادائیگی کرنا لازمی ہے۔ تمام خیراتی اسپتال این ایچ ایس میں ضم کر لئے گئے۔

این ایچ ایس کی بڑی کامیابیاں

1871 میں برطانیہ میں پیدا ہونے والی ہر بچی اوسطاً 45 سال کی عمر تک جیتی تھی۔ این ایچ ایس کی کرامات دیکھیے کہ 2016 میں یہ ممکنہ زندگی بڑھ کر 83 سال ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بے بی، دل، پھیپھڑے اور جگر کی پیوند کاری کا پہلا آپریشن، نابینا افراد کے لئے پہلی بائیونک آنکھ کی تنصیب اور کورونا کی حالیہ وبا میں پہلی ویکسین کی تیاری اور پہلی مہم کا آغاز ایسے کارنامے ہیں جن پر برطانوی شہری بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ دوسرے ممالک کی نسبت صحت پر کم خرچ کرنے کے باوجود این ایچ ایس صحت کے دس بہترین نظاموں میں سے ایک ہے۔