سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت عامہ میں شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی مبینہ کرپشن کا پردہ فاش، چیئرمین سی ڈی اے سے ریکارڈ طلب کر لیا گیا

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت عامہ میں شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی مبینہ کرپشن کا پردہ فاش، چیئرمین سی ڈی اے سے ریکارڈ طلب کر لیا گیا
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت عامہ نے شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کی مبینہ کرپشن کا پردہ فاش کرتے ہوئے واضح کیا کہ شفا انٹرنیشنل ہسپتال نے کس قانون کے تخت اتنا بڑا ہسپتال کھڑا کیا کیونکہ یہ وقف شدہ املاک ہیں اور اس پر کاروباری سرگرمیاں نہیں ہوسکتیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے چیئرمین سی ڈی عامر علی احمد کو احکامات دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس حوالے سے شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے تمام کوائف بشمول الاٹمنٹ لیٹر کمیٹی کو جمع کرایا جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ وقف شدہ املاک پر کیسے ہسپتال بنا اور بعد میں ہسپتال نے نجی یونیورسٹی قائم کی۔

سینیٹ کی کمیٹی برائے صحت عامہ نے گذشتہ سال شفا انٹرنیشنل ہسپتال سے اس معاملے میں تحقیقات کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ شفا انٹرنیشنل ہسپتال خیراتی ادارہ ہے یا پھر کاروباری؟ جس پر کمیٹی کو ہسپتال کے سی ای او ڈاکٹر منظور الحق قاضی نے بتایا تھا کہ ہسپتال خیراتی نہیں بلکہ کاروباری ہے اور سی ڈی اے نے سال 1987 میں شفا انٹرنیشنل کو یہ زمین دی تھی۔ مگر موجودہ معلومات کے مطابق سی ڈی اے نے شفا انٹرنیشنل کو یہ زمین ایک فلاحی ادارے کے قیام کے لئے دی تھی، جس پر بعد میں غیرقانونی طور پر نہ صرف نجی ہسپتال بنا دیا گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک نجی یونیورسٹی بھی قائم کی گئی۔ مگر، شفا ہسپتال کے سی ای او ڈاکٹر منظور نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا۔

گذشتہ سال کمیٹی نے شفا انٹرنیشنل ہسپتال کو احکامات دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ جب بات ٹیکس جمع کرنے کی آجاتی ہے تو ہسپتال انتظامیہ مؤقف اپناتے ہے کہ ایک خیراتی ادارہ ہے لیکن جب بات پیسوں کی آتی ہو تو ہسپتال انتظامیہ مؤقف اپناتے ہے کہ نہیں یہ ایک نجی اور کاروباری ہسپتال ہے۔ کمیٹی نے شفا انتظامیہ کو احکامات دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ شفا انٹرنیشنل ہسپتال اس مد میں تمام کوائف جمع کرائے مگر تاحال یہ معاملہ سست روی کا شکار ہے۔

سینیٹ کمیٹی نے اپنے اجلاس میں واضح کیا تھا کہ شفا ہسپتال سمیت پانچ نجی ہسپتال ہیں جو پاکستان بیت المال کے پیرول پر ہیں۔ شفا ہسپتال کو حکومت کی طرف سے کروڑوں روپے نادار مریضوں کے علاج کے لئے ملتے ہیں مگر تاحال شفا ہسپتال نے کسی بھی شخص کا مفت علاج نہیں کیا۔

کمیٹی نے واضح کیا تھا کہ شفا انٹرنیشنل ہسپتال کو حکومت کی جانب سے امراض قلب کے لئے 8000 ملین کی رقم ملی تھی مگر تاحال ہسپتال نے وہ تعمیر نہیں کیا۔ شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے انتظامیہ نے واضح کیا تھا کہ نہ تو حکومت کی جانب سے انھیں کوئی رقم ملی ہے اور نہ ایسا کوئی معاہدہ ہے۔ اس حوالے سے جب سی ڈی اے کے ایک اعلی افسر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ سی ڈی اے نے 32 سال پہلے یہ زمین شفا ٹرسٹ کے لئے دی تھی مگر بعد میں انھوں نے غیر قانونی طور پر نہ صرف نجی ہسپتال بنایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک نجی یونیورسٹی بھی قائم کی مگر قانونی طور پر وہ صرف فلاحی ادارہ ہے نہ کہ کاروباری۔

ایک سوال کے جواب پر انھوں نے مؤقف اپنایا کہ شفا ہسپتال کے تمام اقدامات غیر قانونی تھے مگر ان کے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوئی کیونکہ مختلف حکومتوں میں ان کے مراسم مضبوط ہوتے تھے اور ان پر ہاتھ ڈالنا ہمارے بس کا کام نہیں تھا۔

نیا دور میڈیا نے اس حوالے سے چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد سے مؤقف جاننے کے لئے رابطہ کیا کہ شفا ہسپتال کے خلاف کیا کارروائی ہوگی تو انھوں نے جواب نہیں دیا۔

واضح رہے کہ شفا انٹرنیشنل اس وقت چار اداروں پر مشتمل ہے جن میں شفا ٹرسٹ اسلام آباد اور پیرودھائی، شفا تعمیر ملت یونیورسٹی اور شفا انٹرنیشنل ہسپتال شامل ہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔