Get Alerts

ایف بی آر کی حقائق سے چشم پوشی اور ناقابل اعتبار اعداد و شمار کا کھیل

ایف بی آر کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ اس کے اعداد و شمار پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں بھی اس کی نشان دہی کی جاتی رہی ہے مگر کسی بھی وزیر خزانہ نے اس کا نوٹس نہیں لیا، باوجود اس کے کہ عالمی مالیاتی فنڈ اس ضمن میں ماضی میں پاکستان پر جرمانہ بھی عائد کر چکا ہے۔

ایف بی آر کی حقائق سے چشم پوشی اور ناقابل اعتبار اعداد و شمار کا کھیل

ہر مالی سال کے خاتمے پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) وزارت خزانہ کے ریونیو ڈویژن کے طور پر سالانہ ہدف سے 'متجاوز' محصولات کے حصول کا (مضحکہ خیز) دعویٰ کرتا ہے۔ اس سال کی پریس ریلیز میں 'انتہائی آسانی' کے الفاظ کا اضافہ بادشاہ سے بھی زیادہ اس کے وفادار ڈرافٹسمین نے شامل کر دیا۔ دیدہ دلیری کا تو کیا ہی کہنا! اس حقیقت کو بالکل ہی نظرانداز کر دیا کہ اصل ہدف جو عالمی مالیاتی فنڈ  کے ساتھ متفقہ طور پر طے ہوا اور جس کا ذکر بجٹ دستاویزات میں کیا گیا ہے تاکہ صوبے اپنی بجٹ سازی اس کے مطابق کر سکیں، کہیں زیادہ تھا۔

اس بات کی وضاحت تاحال نہیں کی گئی کہ بغیر ٹھوس وجوہات کے اصل ہدف کی نیچے کی طرف نظرثانی کیسے اور کس کے حکم سے کی گئی، جبکہ اس کو پارلیمان نے منظور کیا تھا۔ مالی سال 2022-23 میں بھی ایسا ہی کیا گیا تھا، مگر پارلیمان نے بجٹ کی منظوری کے وقت اس کا نوٹس تک نہیں لیا، اس پر بحث تو بہت دور کی بات ہے۔ یہ ہے ہمارے ہاں آئینی جمہوریت کے حالات اور منتخب ارکان کا رویہ! ان کو صرف اپنی تنخواہ، سہولیات اور مراعات سے دلچپسی ہے۔

مالی سال 2023-24 کے وفاقی بجٹ کی منظوری کے وقت ایف بی آر کا ہدف 9415 ارب روپے مقرر کیا گیا تھا، جو نظرثانی کے بعد کم کر کے 9252 ارب روپے کر دیا گیا۔ اس کے بارے میں قومی اسمبلی میں کسی بحث کا ذکر تک نہیں ملتا۔

ایف بی آر نے 29 جون 2024 کو جاری کردہ پریس ریلیز میں دعویٰ کیا کہ اس نے 'مالی سال 2023-24 میں 9252 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 9306 ارب روپے جمع کیے ہیں جو کہ سالانہ ہدف سے 54 ارب روپے زیادہ ہیں'۔ حقیقت میں وصولی اصل ہدف سے 109 ارب روپے کم تھی۔

ریونیوکریسی ایک بار پھر بینکر سے وفاقی وزیر خزانہ اور وزیر ریونیو بننے والے سینیٹر محمد اورنگزیب کو جھانسہ دینے میں کامیاب رہی، جیسا کہ ماضی میں تمام وزرائے خزانہ کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہا ہے یا پھر وہ اس گیم پلان کا حصہ رہے ہیں۔

ایف بی آر کی ویب سائٹ پر دستیاب یکم جولائی 2024 کی ایک اور پریس ریلیز میں کہا گیا ہے:

'… وزیر خزانہ نے ایف بی آر کی ٹیم کو مالی سال 2023-24 کے لیے 9311 بلین روپے جمع کر کے ریونیو کے ہدف سے تجاوز کرنے میں مثالی کارکردگی پر تعریف کی اور مبارک باد دی'۔

ایک ہی دن میں محصولات میں 5 ارب روپے کے اضافے کی رپورٹنگ کر کے ایف بی آر نے ایک مرتبہ پھر عوام، بین الاقوامی قرض دہندگان اور عطیہ دہندگان اداروں کے ساتھ ساتھ وزیر خزانہ کو چکمہ دینے کا اپنا روایتی طریقہ کار جاری رکھا۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایف بی آر نے ابھی تک اپنی ویب سائٹ پر ٹیکس دہندگان کے واجب الادا ریفنڈز کی اصل رقم کیوں ظاہر نہیں کی۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ، محصولات اور اقتصادی امور کے سامنے، ایف بی آر کے حکام نے 10 جولائی 2020 کو اعتراف کیا کہ جون 2014 سے جون 2019 تک 532 بلین روپے واجب الادا تھے۔ انہوں نے کبھی بھی یہ نہیں بتایا کہ ان ریفنڈز کا کیا ہوا اور اگلے پانچ سال میں اس میں کتنا اضافہ یا کمی ہوئی۔ ایف بی آر نے 30 ​​جون 2024 تک کل واجب الادا ریفنڈز کی رقم کا بھی تاحال کوئی انکشاف نہیں کیا۔

ایف بی آر کا اربوں کے غیر ادا شدہ ریفنڈز کا انکشاف نہ کرنا انتہائی تشویش کا امر ہے۔ کیا یہ ایک اور گردشی قرضہ نہیں ہے، جیسا کہ پاور سیکٹر میں کئی ٹریلین روپے کا واجب الادا ہے؟ یہ اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ ایف بی آر گذشتہ کئی سالوں سے وصولی کے ہدف کے حصول کی رقم سےغیر ادا شدہ ریفنڈز منہا نہ کر کے اس کو درست انداز میں پیش نہیں کرتا رہا۔ اس سے صوبوں کو حصہ بھی ان کے اصل حق سے زائد ادا ہو جاتا ہے اور کل مالیاتی خسارے کی اصل رقم کا غلط تعین بھی ہوتا ہے۔

اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہدف کو پورا کرنے کے لئے ہر سال واجب الادا ریفنڈز روکنے کے علاوہ اربوں روپے کے ایڈوانسز (advances) بھی لیے جاتے ہیں جو کہ ابھی واجب الادا بھی نہیں ہوتے۔ اس طرح ایک طرف تو ہدف کی وصولی کو بڑھا کر بیان کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اس کی بنیاد پر اگلے سال کے ہدف کا غیر حقیقی تعین کر دیا جاتا ہے۔

ایف بی آر کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ اس کے اعداد و شمار پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں بھی اس کی نشان دہی کی جاتی رہی ہے مگر کسی بھی وزیر خزانہ نے اس کا نوٹس نہیں لیا، باوجود اس کے کہ عالمی مالیاتی فنڈ اس ضمن میں ماضی میں پاکستان پر جرمانہ بھی عائد کر چکا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ موجودہ وزیر خزانہ و مالیاتی امور محمد اورنگزیب، جو بینکنگ کے شعبہ میں 35 سال کا تجربہ رکھتے ہیں، مالیاتی امور میں شفافیت کی اہمیت کے پیش نظر اس معاملہ کی ذاتی طور پر تفتیش کریں گے۔

ایف بی آر کی جانب سے صرف ریفنڈز کی ادا شدہ رقم اور کل واجب الادا کا ہدف کی وصولی سے منہا نہ کرنے کی رپورٹنگ کے مشکوک معاملات کا آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ٹیم سے تفصیلی اور فوری آڈٹ ہونا چاہیے۔ موجودہ وزیر خزانہ کو اس سلسلے میں پہل کرنی چاہیے تا کہ ایف بی آر کی طرف سے اعداد و شمار کی چال بازی اور اس کی ناقص کارکردگی پر سنگین الزامات کے تناظر میں حقیقی تصویر سب کے سامنے آ سکے۔

اوپر بیان کیے گئے حقائق کے پیش نظر ایف بی آر کی مالی سال 2023-24 کی کارکردگی کا جامع تجزیہ اس وقت کیا جائے گا جب وہ اس کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ جس کو Year Book کہا جاتا ہے، جاری کرے گا۔ ساتھ ہی تمام روکے گئے ریفنڈز اور غیر واجب الادا ایڈوانس ادائیگیوں کی تمام تفصیلات بھی سامنے آئیں گی۔

ماضی میں ایف بی آر اپنی Year Books میں ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی وصولی سے متعلق اعداد و شمار جاری کرتا رہا ہے، جن میں اس کی کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لیے کامیابیوں، کمزوریوں اور دیگر اہم متعلقہ انکشافات کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا جاتا تھا۔ مگر مالی سال 2019-20 اور اس کے بعد، حتیٰ کہ تازہ ترین شائع شدہ 2022-23 Year Book [ریونیو ڈویژن] میں، ٹیکس سال 2022 کے لیے موصول ہونے والے کل انکم ٹیکس گوشواروں اور سیلز ٹیکس ایکٹ، 1990 کے تحت رجسٹرڈ افراد کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ہے۔

آخری بار ایسا ڈیٹا باضابطہ طور پر ایف بی آر کی ایئر بک 2018-19 میں جاری کیا گیا تھا، جس میں ٹیکس سال 2018 کے لیے Book Year کو حتمی شکل دینے کی تاریخ تک کل 2,666,256 انکم ٹیکس گوشوارے ملنے کا ذکر تھا، جن میں سے 43,246 کمپنیوں کے تھے۔ تاہم، ''تمام ٹیکس دہندگان کی ٹیکس ڈائریکٹری برائے ٹیکس سال 2018' کے ساتھ ساتھ 'ٹیکس ڈائریکٹری تجزیہ برائے ٹیکس سال 2018' میں ٹیکس سال 2018 کے لیے 14 ستمبر 2020 تک موصول ہونے والے انکم ٹیکس گوشواروں کی کل تعداد 2,852,349 دکھائی گئی۔

بار بار درخواستوں کے باوجود ایف بی آر کی جانب سے نئے ٹیکس گزار (filers) سے وصول کیے گئے ٹیکس میں اضافہ کی رقم کو ظاہر نہیں کیا گیا۔ اس طرح کی معلومات کو عوام سے پوشدہ رکھنا آئین کے آرٹیکل 19اے کی صریح خلاف ورزی ہے جو کہتا ہے؛ 'ہر شہری کو عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات تک رسائی حاصل کرنے کا حق ہو گا جو ضابطے اور قانون کی طرف سے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع ہو'۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پاکستانی عوام کسی خاص ٹیکس دہندہ کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مانگ رہے، جسے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 216 کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ وہ صرف ہر ٹیکس سال کے لیے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کی قومی خزانہ میں شراکت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

عوام ٹیکس دہندگان کے تمام زمروں، یعنی کمپنیوں، افراد کی ایسوسی ایشن (AOPs) اور افراد (تنخواہ دار، غیر تنخواہ دار) کے ساتھ ساتھ کاروبار اور پیشے سے منسلک افراد، کی جانب سے ادا کیے جانے والے ٹیکس کا مکمل تجزیہ چاہتے ہیں۔ یہ ڈیٹا مسلسل پانچ سالوں سے کسی بھی  Year Book یا ایف بی آر کی کسی اور دستاویز میں دستیاب نہیں ہے۔

جہاں تک  Year Book برائے مالی سال 2022-23 میں بہت زیادہ غیر معمولی کارکردگی کے حوالے سے ذکر ہے کہ، 'مالی سال 2022-23 کو ایک تاریخی سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ وفاقی ٹیکس وصولی نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار 7 ٹریلین روپے سے تجاوز کر کے ایک نئی بلندی کو چھو لیا'، یہ بات قابل ذکر ہے کہ انکم ٹیکس کی کل وصولی 3086 ارب روپے میں سے صرف 10 قسم کے ودہولڈنگ ٹیکسز کا حصہ 1762.5 بلین روپے تھا۔ بقیہ ودہولڈنگ پروویژنز سے 111.75 بلین روپے حاصل ہوئے، کل 1874.2 بلین روپے ودہولڈنگ ایجنٹس نے سرکاری خزانہ میں جمع کروائے۔ ایڈوانس انکم ٹیکس 945.3 بلین روپے ادا کیا گیا اور انکم ٹیکس گوشواروں کے ساتھ 122 ارب روپے۔

ایف بی آر کے افسران نے اپنی کوششوں سے صرف 144 بلین روپے اکٹھے کئے۔ (2.8 بلین روپے کے بقایا جات اور موجودہ ڈیمانڈ میں سے 114.4 بلین روپے)، جو کہ کل انکم ٹیکس وصولی کا صرف 4.66 فیصد ہے۔ یہ دلیل کہ ان لینڈ ریونیو سروس (IRS) کا عملہ ودہولڈنگ ٹیکس کی نگرانی میں حصہ ڈالتا ہے، غلط ہے جیسا کہ ذیل میں درج حقائق سے ثابت ہوتا ہے۔

انکم ٹیکس ودہولڈنگ ٹیکس کے نظام کے تحت بڑے شراکت داروں سے وصول شدہ رقوم کی تقسیم اور تفصیل درج ذیل ہے:

معاہدے (390.8 بلین روپے)، بینک سود اور سکیورٹیز (320 بلین روپے)، درآمدات (290.3 بلین روپے)، تنخواہیں (264.3 بلین روپے)، بجلی کے بلز (95 بلین روپے)، ٹیلی فون اور موبائل (87.2 بلین روپے)، ڈیویڈنڈ (85.3 بلین روپے)، غیر منقولہ جائیداد کی خریداری/ منتقلی پر ایڈوانس ٹیکس (84.7 بلین روپے)، برآمدات (73.8 بلین روپے) اور غیر منقولہ جائیدادوں کی فروخت پر ایڈوانس ٹیکس (70.3بلین روپے) - بحوالہ ٹیبل 8، ریونیو ڈویژن سال کی کتاب 2022-23 کا صفحہ 11۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ متعلقہ سال کے دوران مروجہ مزید 30 کے قریب ودہولڈنگ ٹیکس کی دفعات کے لیے کوئی انفرادی تفصیل نہیں دی گئی اور ان کے تحت کل وصولی 111.75 بلین روپے ظاہر کی گئی ہے۔

ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس کی سخت نگرانی کی ضرورت ہے جس کے لیے اس نے کوششیں کیں۔ اگر یہ سچ ہے تو نادہندہ ودہولڈنگ ٹیکس ایجنٹوں کو لازمی طور پر جرمانہ کیا جانا چاہیے اور مطالبہ موجودہ/ بقایا جات کی وصولی، ایک علیحدہ نوٹ کے ذریعے ظاہر ہونا چاہیے، جو مکمل طور پر غائب ہے۔ ایف بی آر کے لیے 30 جون 2023 اور 2024 کو کیٹیگری کے لحاظ سے ایسی کسی بھی کارروائی کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ اس کی تشہیر، انکم ٹیکس گوشواروں اور سیلز ٹیکس رجسٹرڈ افراد کی تعداد کو اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے کے لیے ابھی بھی کھلا موقع ہے۔

ایف بی آر کو 30 جون 2024 تک واجب الادا کل رقم کی واپسی (undisputed and determined efunds) کا بھی انکشاف کرنا چاہیے۔ ریونیو ڈویژن کی سال کی کتاب 2022-23 کے مطابق صرف 17.3 بلین روپے کی ادائیگی کی گئی ہے جو مالی سال 2021-22 میں 54.2 بلین روپے کے مقابل 68 فیصد کی منفی نمو دکھا رہی ہے۔ اگر تمام ٹیکسز کے تحت تمام واجب الادا رقم کی واپسی ایف بی آر کی وصولی سے منہا کر دی جاتی تو کل رقم 6.5 ٹریلین روپے سے زیادہ نہ ہوتی۔ اس سے مالی سال 2022-23 میں 7 ٹریلین روپے کا سنگ میل تجاوز کرنے کے دعوے کی نفی ہو جاتی۔ سال کی کتاب 2022-23 میں فراہم کردہ اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ غریب عوام کی زندگی اور معیشت پر اس کے اثرات کا اندازہ کیے بغیر بالواسطہ ٹیکس پر بہت زیادہ انحصار (یہاں تک کہ متعدد لین دین پر فرضی/ کم سے کم ٹیکس کے نظام کے ذریعے انکم ٹیکس کی آڑ میں بھی) کیا گیا۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہر قسم کے بے جا اور غیر منصفانہ ودہولڈنگ ٹیکسز، ریفنڈز کو روکنے اور پیشگی ٹیکسوں کا سہارا لینے کے باوجود ایف بی آر ٹیکس ٹو جی ڈی پی (GDP-to-tax) کے تناسب کو بہتر بنانے میں ناکام رہا ہے۔ مالی سال 2022-23 میں ایف بی آر کی وصولی کی حد تک یہ قابل رحم طور پر 8.5 فیصد رہی۔ ایف بی آر 7400 ارب روپے بھی جمع نہیں کر سکا تھا۔

مالی سال 2022-23 میں ایف بی آر کا اصل ہدف 7460 بلین روپے تھا، جسے بعد میں نظرثانی کر کے 7640 بلین روپے کر دیا گیا تھا۔ منی بجٹ، فنانس (سپلیمنٹری) ایکٹ، 2023 کے ذریعے 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے گئے۔

سال 2022-23 کی کتاب میں ایف بی آر نے اعتراف کیا ہے کہ 'نظرثانی شدہ ہدف 7200 بلین روپے کے حصول میں 0.5 فیصد کی معمولی کمی رہی'۔ جبکہ مالی سال 2022-23 کے بجٹ میں ہدف 7460 ارب روپے مقرر کیا گیا تھا۔ ہر سال ایف بی آر کے ہدف میں کمی کی نظرثانی گویا ایک معمول بن چکا ہے۔

ایف بی آر نے مالی سال 2023 میں 7.16 ٹریلین ارب روپے اکٹھے کیے۔ ساتویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 4.22 ٹریلین روپے کی منتقلی کے بعد، وفاقی حکومت کو دستیاب خالص آمدنی 4.65 ٹریلین روپے تھی، جبکہ صرف قرض کی خدمت کی مد میں خرچہ گھریلو قرضوں پر 5.07 ٹریلین روپے اور غیر ملکی قرضوں پر 760 ارب روپے تھا۔

مالی سال 2023 میں تمام صوبوں نے مل کر صرف 649.56 بلین روپے کے ٹیکسز اور 165.88 بلین روپے غیر ٹیکس محصولات کے طور پر جمع کیے تھے۔

مالی سال 2022-23 میں ایف بی آر نے انکم ٹیکس کے طور صرف 3086 بلین روپے اکٹھے کیے جو جی ڈی پی میں مشکل سے 4 فیصد کا مایوس کن حصہ ظاہر کرتا ہے۔ یہ جی ڈی پی کا 6 فیصد ہو سکتا تھا اگر امیر غیر حاضر زمینداروں سے زرعی انکم ٹیکس وصول کیا گیا ہوتا اور طاقتور طبقات کی تمام ٹیکس مراعات ختم کر دی جاتیں، جیسا کہ ڈاکٹر محمد اشفاق، سابق چیئرمین ایف بی آر نے منصوبہ بنایا تھا۔ انہوں نے بجا طور پر صوبوں سے امیر جاگیرداروں کی ٹیکس چوری روکنے کے لیے کہا تھا، لیکن ان کی کوششیں بار آور ہونے سے پہلے ہی حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ان کو بھی ہٹا دیا گیا۔

موجودہ چیئرمین ایف بی آر تو وفاقی حکومت کے علاقہ جات میں بھی زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کو صوبائی معاملہ سمجھتے ہیں۔ ان کو بار بار یاد دہانی کے اور لکھ کر بھی باور کروانے سے اس سال کے فنانس ایکٹ 2024 میں بھی امیر غیر حاضر زمینداروں پر زرعی انکم ٹیکس وفاقی حکومت کے علاقہ جات میں نافذ نہیں کیا گیا جبکہ غریب عوام اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا عذاب نازل کر دیا گیا ہے۔ افسوس کہ وفاقی حکومت کے علاقہ جات میں بھی زرعی انکم ٹیکس کے معاملہ کو وزیر خزانہ اور مالیاتی امور محمد اورنگزیب سے بھی پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ انہیں اس کی انکوائری کا حکم دینا چاہیے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کی اتحادی حکومت نے 10 اپریل 2022 کو اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے 16 ماہ کے دور حکومت میں ملک کو ایک مالیاتی بحران کی طرف دھکیل دیا۔ مالی سال 2023 کے لیے وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ کنسولیڈیٹڈ وفاقی اور صوبائی مالیاتی آپریشنز، 2022-23 [سمری] سے یہ واضح ہے؛ کل قومی آمدنی 9.63 ٹریلین روپے کے مقابلے میں اخراجات 16.15 ٹریلین روپے۔

صوبوں کو منتقلی کے بعد وفاقی حکومت کے پاس دستیاب خالص محصولات میں سے قرض کی خدمت کے صرف ایک خرچ 5.83 ٹریلین روپے کو پورا کرنے کے لئے 1.18 ٹریلین روپے کی کمی تھی، یعنی اس طرح تمام اخراجات بشمول پورے دفاعی اخراجات 1.59 ٹریلین روپے مہنگے ادھار فنڈز کے ذریعے پورے کیے گئے۔ یہ ایک مالیاتی ناکامی سے بڑھ کر تھا - ایک پریشان کن خطرناک سگنل، ریاست کے معاشی استحکام اور قومی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ، مگر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بجٹ 2024 پر بحث کے وقت اس پر بات تک نہیں ہوئی۔

بیرونی اور اندرونی مہنگے قرضوں کے تباہ کن اثرات کے نتیجے میں صرف ایک سال کے دوران قرضوں کی فراہمی میں 45 فیصد اضافہ ہوا۔ سمری کے مطابق مالی سال 2023 میں قرض کی خدمت پر کل اخراجات 5831 ارب روپے تھے جو مالی سال 2022 میں 3182 بلین روپے تھے۔ نتیجتاً تمام معاشی خرابیوں کی ماں معاشی خسارہ 6.5 ٹریلین روپے یا جی ڈی پی کا 7.7 فیصد (84.658 ٹریلین روپے) تک پہنچ گیا۔

حال ہی میں ختم ہونے والے مالی سال 2023-24 میں بھی صورت حال پریشان کن رہی۔ قرض کی خدمت کے لیے مختص رقم 7302 ارب روپے تھی، لیکن اصل اخراجات 8251 ارب روپے۔ اس نے مالیاتی خسارے کو 8388 ارب روپے تک دھکیل دیا۔

لہٰذا اب اس بات کی کیا اہمیت ہے کہ اگر ابھی شروع ہوئے مالی سال 2024-25 میں وفاقی حکومت ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو دونوں کو پورا کر بھی لے تب بھی مالیاتی خسارہ 9000 ارب تک پہنچ جائے گا، حالانکہ بجٹ میں اسے 8500 ارب روپے ظاہر کیا گیا ہے۔

مالی سال 2025 کے اختتام پر قرض کی خدمت کے ہدف 9775 بلین روپے میں یقینی طور پر اوپر کی طرف نظرثانی کی جائے گی اور ایف بی آر کے مقرر کردہ ہدف 12370 بلین روپے میں نیچے کی جانب۔ یہ وزارت خزانہ اور ایف بی آر میں بیٹھے زیرک اور طاقتور بیوروکریٹس کا آزمودہ، طویل مشق شدہ اور اچھی طرح سے وضع کردہ طریقہ کار ہے جو ہر بجٹ میں اخراجات کو کم اور ٹیکس محصولات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اگر اسے دانشمندانہ بجٹ سازی کہا جائے تو دائمی پاگل پن کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے!

مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔