پاکستان تحریک انصاف کو 9 مئی کے پرتشدد احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کی پاداش میں جس طرح کی سزا پنجاب اور سندھ میں دی گئی، اسی طرح کی اکھاڑ پچھاڑ کی توقع پی ٹی آئی کے مضبوط قلعہ خیبر پختونخوا میں بھی متوقع تھی تاہم تاحال یہاں کسی بڑے رہنما نے کھلے عام پارٹی سے بغاوت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب بعض تجزیہ نگاروں کا دعوٰی ہے کہ پختونخوا میں پی ٹی آئی کی اکثریتی قیادت عمران خان کا ساتھ چھوڑ چکی ہے، صرف رسمی اعلان ہونا باقی ہے جو آئندہ چند دنوں میں متوقع ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کا بدستور ایک مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ گذشتہ دو انتخابات میں پارٹی نے خلاف توقع جس انداز سے اس صوبے سے بھاری مینڈیٹ حاصل کر کے حکومت بنائی، اس کی مثال ماضی میں کم ہی ملتی آئی ہے۔ یہاں یہ روایت رہی ہے کہ ایک جماعت جب حکومت کرتی ہے تو دوسری مرتبہ باری ان کو مشکل ہی سے میسر آتی ہے لیکن پی ٹی آئی کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ انہیں مسلسل دوسری مرتبہ بھاری مینڈیٹ ملا جس سے اس صوبے میں جماعت کی مقبولیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم 9 اور 10 مئی کو پی ٹی آئی کارکنوں کی طرف سے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے دنگے فساد اور جلاؤ گھیراؤ سے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان ہوا جس سے اب پارٹی کے وجود کو یقینی طور پر سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
چند دن پہلے پاکستان فوج کے فارمیشن کمانڈرز کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ اس بیان سے بظاہر لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کے لئے مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ جس طرح پنجاب اور سندھ میں پارٹی کو دن دہاڑے توڑا گیا اسی طرح پختونخوا میں بھی ان کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
پشاور کے سینیئر صحافی عارف یوسفزئی کا کہنا ہے کہ پختونخوا میں یہ خاموشی ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے دعوٰی کیا کہ 'پختونخوا میں پی ٹی آئی کے قریباً 90 فیصد رہنما عمران خان اور پارٹی کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں، صرف ان کی طرف سے رسمی اعلان ہونا باقی ہے جو آئندہ چند دنوں میں متوقع ہے'۔ اپنی اطلاعات کی بنیاد پر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہاں پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریاں اس وجہ سے نہیں کی گئیں کیونکہ پرویز خٹک اور اسد قیصر سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی درخواست پر انہیں سوچنے کے لیے کچھ وقت دیا گیا تھا تاکہ اس دوران وہ صلاح مشورہ کر سکیں لیکن اب وہ وقت ختم ہو گیا ہے اور آئندہ چند دنوں میں یہاں بڑے بڑے اعلانات متوقع ہیں۔
عارف یوسفزئی کے مطابق نیب کی جانب سے پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری بھی تیار کئے گئے تھے لیکن پھر کسی وجہ سے ان پر عمل درآمد نہیں کرنے دیا گیا اور شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان سیاست دانوں کی طرف سے طاقت ور اداروں کو ہر قسم کے تعاون کی یقینی دہانیاں کرائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب اور دیگر تحقیقاتی ادارے بڑی تیزی سے پی ٹی آئی کے 9 سالہ دور اقتدار کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور اس ضمن میں بی آر ٹی اور دیگر بڑے منصوبوں میں کرپشن اور بدعنوانیوں کے کیسز تیار ہو رہے ہیں۔
تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی کے ایک صوبائی رہنما نے نام نہ بتانے کی شرط پر نیا دور میڈیا کو بتایا کہ طاقت ور اداروں کی جانب سے پنجاب کی طرح پختونخوا میں بھی پی ٹی آئی کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن انہیں مکمل طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طورپر پی ٹی آئی قیادت سے رابطے میں ہیں اور اس ضمن میں تمام رہنما یک زبان ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ پی ٹی آئی کو کبھی خیرباد نہیں کہہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد پختونخوا میں پی ٹی آئی کے 3 ہزار سے زائد کارکنوں کو معمولی معمولی جرائم میں پابند سلاسل کیا گیا تاہم ان میں سے بیش تر کارکنوں کو اب رہا کر دیا گیا ہے۔
پختونخوا میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ یہاں پی ٹی آئی کی تقسیم کی صورت میں اس کے ووٹ بنک پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا کیونکہ پی ٹی آئی میں ووٹ عمران خان کا ہے اور وہ جس کو بھی ٹکٹ دے گا اسے ووٹ پڑیں گے۔
حال ہی میں صوبے کے مختلف اضلاع کا دورہ کرنے والے پشاور کے سینیئر صحافی اور کالم نگار محمود جان بابر کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے واقعات سے پہلے صوبے میں تحریک انصاف اندرونی طور پر کئی گروہوں میں بٹی ہوئی تھی لیکن اب بظاہر لگتا ہے کہ پارٹی پر آنے والی مشکلات ان گروہوں میں اتحاد و اتفاق کا باعث بنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے دورے کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ پی ٹی آئی کا ورکر اور رہنما اپنی جگہ پر بدستور موجود ہے اور ان کے آپس کے چھوٹے موٹے اختلافات بھی ختم ہو گئے ہیں۔
اس سوال پر کہ اگر پرویز خٹک پی ٹی آئی چھوڑتے ہیں تو اس کے پارٹی پر کس قسم کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، محمود جان بابر نے کہا کہ پرویز خٹک یقینی طور پر اس صوبے کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں لیکن شاید وہ اپنے کارڈز اس وقت شو کریں گے جب عمران خان یا پی ٹی آئی کے مستقبل کا کوئی فیصلہ ہو چکا ہو گا۔ بہرحال وہ پھر بھی شاید پی ٹی آئی کے نوجوان ووٹرز کو نظر انداز نہیں کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں پرویز خٹک اس بات کو افورڈ نہیں کر سکتے کہ وہ کوئی غیر مقبول فیصلہ کریں ورنہ پھر مستقبل میں ان کا انجام بھی اپنے 'سیاسی استاد' آفتاب احمد خان شیرپاؤ جیسا ہو سکتا ہے۔
9 مئی کے واقعات کے بعد پختونخوا میں پی ٹی آئی کے کسی اہم رہنما نے ابھی تک پارٹی سے کھل کر لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے چند ہفتے قبل اسلام آباد میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں صرف پارٹی کی صوبائی صدارت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا تاہم حالیہ دنوں میں ان کی طرف سے ایک وضاحت بھی سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا کہ ان کی جانب سے صرف پارٹی عہدہ چھوڑا گیا ہے جبکہ بحیثیت ورکر وہ بدستور تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔
سید وقاص شاہ پشاور کے سینیئر صحافی اور اینکر پرسن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں شک نہیں پرویز خٹک کی طرف سے کوششیں ہو رہی ہیں کہ کسی طریقے سے ایک الگ اور بڑا گروپ بنا کر آئندہ انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کی پوزیشن میں آ جائیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ صوبے کی دو بڑی سیاسی جماعتوں؛ عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام میں پرویز خٹک کی جگہ نہیں بنتی لہٰذا زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ اتحاد کریں گے یا پھر اس میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔
ان کے بقول 'پختونخوا میں پی ٹی آئی کے قریباً 70 فیصد سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی ابھی تک کہیں نہیں گئے بلکہ اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ ان کے پاس شاید تحریک انصاف کے علاوہ کسی دوسری جماعت میں جانے کا آپشن نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی کامیابی اگر ہے تو صرف پی ٹی آئی میں ہے ورنہ نہیں۔ یہ ممبران حالات پر نظر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ہاں اگر مستقبل میں پی ٹی آئی یا عمران خان پر پابندی لگتی ہے تو ایسی صورت میں یہ افراد آزاد الیکشن لڑیں گے یا پھر جماعت اسلامی کی طرف جا سکتے ہیں'۔
سید وقاص شاہ کے مطابق سیاست اپنی جگہ لیکن اس صوبے کی کچھ ایسی روایات بھی ہیں جن کی وجہ سے پی ٹی آئی قیادت کو اپنی جماعت چھوڑنے کی صورت میں اپنے خاندان کے لوگوں، عزیزوں اور رشتہ داروں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسد قیصر کو اپنی ماں کی طرف سے تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر اس نے پی ٹی آئی چھوڑی تو وہ ساری زندگی ان کا منہ نہیں دیکھیں گی۔ اسی طرح شاہ فرمان کو اپنے بچوں کی وجہ سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ مجھے بیرسٹر سیف نے خود بتایا کہ اگر عمران خان پر مشکل وقت نہ آیا ہوتا تو شاید وہ انہیں چھوڑ دیتا لیکن اب میری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ مشکل کے وقت میں ان سے کنارہ کشی اختیار کر لوں'۔
پشاور کے ایک اور سینیئر صحافی عابد حمید کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاست اکثر اوقات پنجاب کے گرد گھومتی رہی ہے اور عمومی تاثر بھی یہ ہے کہ پنجاب میں جو جماعت برسراقتدار آئے گی مرکز میں بھی حکومت بنانے کے لئے زیادہ مستحکم پوزیشن میں ہو گی لہٰذا حکمران اتحاد اور طاقت ور اداروں کی ساری توجہ اس وقت پختونخوا کے بجائے پنجاب پر مرکوز ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب پی ٹی آئی اور عمران خان کے مستقبل کا فیصلہ ہو جائے گا تو زیادہ امکان یہی ہے کہ اس وقت یہاں سے پی ٹی آئی کی مقامی قیادت اڑان بھر لے گی۔
مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔