12 مئی 2007 ملک کی سیاسی و جمہوری تاریخ کو وہ سیاہ ترین دن ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ 13 سال قبل آج ہی کے دن سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بے گناہ شہریوں کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ 12 مئی 2007 کو آزاد عدلیہ اور اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی اور آزاد عدلیہ کے لئے سڑکوں پر نکلنے والے درجنوں بے گناہ سیاسی کارکنان، وکلا اور عام افراد نے اپنی جانیں گنوائیں اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 12 مئی کو 40 افراد قتل اور 100 کے قریب افراد زخمی ہوئے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں اور اس روز قتل اور زخمی ہونے والوں کی تعداد سرکاری اعداوشمار سے کہیں زیادہ ہے۔
سپریم کورٹ کے اس وقت کے معزول شدہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے والے ان کے استقبال کے لئے کراچی ایئرپورٹ جانا چاہتے تھے۔ معصوم پاکستانیوں کی قربانیوں کی بدولت ہی عدلیہ بحالی تحریک کامیاب ہوئی اور افتخار محمد چوہدری بحال ہوئے مگر بحالی کے بعد انہوں نے سانحہ 12 مئی کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ افتخار محمد چوہدری کو ڈکٹیٹر پرویز مشرف سمیت 12 مئی کے تمام ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے تھا مگر ہماری آزاد عدلیہ کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ 12 مئی کے متاثرین کو انصاف فراہم کرنا تو درکنار اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری شہدا کے لواحقین سے تعزیت کرنے بھی نہیں گئے، جنہوں نے ان کی بحالی کے لئے اور ملک میں قانون کی بالا دستی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری مختلف ازخود نوٹسز کی بنیاد پر خبروں میں رہے ہیں۔ انہوں نے بطور چیف جسٹس سموسے اور چینی کی قیمت پر تو از خود نوٹس لیے مگر سانحہ 12 مئی کو بھول گئے۔ اس میں ملوث کئی ملزمان گرفتار بھی ہوئے جنہوں نے بہت سے اہم انکشافات کیے۔ ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی کامران فاروقی نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ سانحہ 12 مئی کی منصوبہ بندی کے لئے نائن زیرو پر اجلاس منعقد ہوا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ قیادت نے ہر صورت شہر بند کرنے کی ہدایت دی تاکہ وکلا اور عوام افتخار محمد چوہدری کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ نہ پہنچ سکیں۔
سانحہ 12 مئی وہ مقدمہ ہے جس میں گواہوں کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ اس روز شاہراہ فیصل پر کھیلی جانے والی خون کی ہولی کو پوری دنیا نے کیمرے کی آنکھ سے براہ راست دیکھا۔ مختلف ٹی وی چینلز نے فائرنگ کرنے والوں کو بھی دکھایا۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی جانب سے دکھائی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز کی مدد سے فائرنگ کرنے والوں کی پہچان باآسانی ہو سکتی ہے مگر تمام ثبوتوں اور گرفتار ملزمان کے انکشافات کے باوجود اس واقعہ میں میں ملوث کسی بھی شخص کو سزا نہیں دی جا سکی جو ہمارے عدالتی نظام کی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
13 سال گزر گئے لیکن کراچی شہر میں خون کی ہولی کھیلنے والے قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ مقتولین کے ورثا کی امیدیں بھی دم توڑ گئی ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا سانحہ 12 مئی کے ذمہ داران کو سزا ملے گی؟ ہمارے عدالتی نظام میں اتنی خامیاں ہیں کہ عام آدمی کا موجودہ عدالتی نظام پر بھروسہ ہی نہیں رہا مگر پھر بھی ایک آس ہے کہ شاید انصاف ہو جائے۔ بلاشبہ یہ سانحہ دل دہلا دینے والا تھا۔ آج بھی اس سانحے کی غیر جانبدارانہ اور آزادانہ عدالتی تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ ان ذمہ داروں کو سزا دی جا سکے اور آئندہ وطنِ عزیز کی سڑکوں اور چوراہوں پر یوں خون کی ہولی نہ کھیلی جائے۔