جب ہم نے سب واٹس ایپ پیغامات نظر انداز کر کے کورونا کی ویکسین لگوائی

جب ہم نے سب واٹس ایپ پیغامات نظر انداز کر کے کورونا کی ویکسین لگوائی
سوشل میڈیا پر یار دوستوں کی بالخصوص اُن کی جو چالیس بہاریں دیکھ چکے تھے، ویکسی نیشن کراتے ہوئے تصاویر دیکھ کر یقین جانیں پہلی بار احساس ہوا کہ ہماری عمر چالیس کا پائیدان پار کر چکی ہے اور ہم اس راز کو سب سے پوشیدہ رکھتے ہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ اس پر سے پردہ اٹھنا چاہیے۔ جبھی فیصلہ کر لیا کہ اب ہم کو بھی اس آگ کے سمندر کو پار کرنا ہوگا۔ سچ مانیں تو سوشل میڈیا پر ویکسی نیشن کراتے ہوئے احباب کی تصاویر دیکھ کر عجیب سے احساس کمتری کا شکار ہونے لگے لیکن سوچا یہ بھی کہ شکر کریں کہ کورونا سے بچاؤ کا یہ ٹیکا بازو پر ہی لگ رہا ہے۔

خیر جی پہلے پہل تو یہ خیال بھی آیا جو ہم ’بانکے سجیلے جوان‘ بنتے ہیں، اُس کا سارا بھرم جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔ ممکن ہے کہ ’انکل‘ کہنے کا طعنہ ہی مل جائے۔ ’عمر رسیدہ‘ ہونے کے انکشاف پر کئی حسینائیں منہ ہی نہ پھیر لیں، لیکن ہم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ’men turn naughty at forty‘ اور اسی پہلو کو ذہن میں رکھ کر سوچا کہ بس بہت ہوا۔ اب ویکسی نیشن کے لےے اپلائی کر ہی دیتے ہیں۔ کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے۔

معلومات حاصل کر کے سب سے پہلے 1166 پر شناختی کارڈ نمبر لکھ کر بھیجا اور چند ہی سکینڈ میں جواب آ گیا کہ رجسٹریشن ہو گئی ہے، اگلے پیغام کا انتظار کریں۔ ساتھ ہی بتادیا گیا کہ ’تصدیقی کوڈ‘ کیا ہے۔ اس دوران 50 سال سے زائد عمر کے وہ افراد جو ویکسی نیشن کے عمل سے گزر چکے تھے، ان سے مزید معلومات لینا شروع کیں کہ بھلا کس طرح یہ مرحلہ پار ہوتا ہے۔ اس سفر میں چند ایسے ’نادان دوستوں‘ سے بھی پالا پڑا، جو ’ویکسی نیشن‘ کرانے کی سخت مخالفت کرتے نظر آئے۔ کسی نے اسے فرنگیوں کی ’سازشی تھیوری‘ گردانا تو کسی نے لگوانے کے بعد اس کے مضر اثرات سے ڈرایا دھمکایا۔ ایک دوست فرمانے لگے ’بیٹا ابھی نہیں پتہ چلے گا، دیکھنا تین سال بعد کیا ہوتا ہے تمہارے ساتھ‘۔ تصدیق چاہی کہ انہیں یہ ’عظیم معلومات‘ کہاں سے ملیں؟ تو بے چاروں نے سوشل میڈیا پر آیا ایک ایسا خوف ناک معلومات والا لنک سینڈ کر دیا، جسے پڑھنے کے بعد لگا کہ لگایا اگر ٹیکا تو بس جی دنیا ختم ہونے کو ہے۔ نجانے کون لوگ ہوتے ہیں اور کہاں سے عوام کو ورغلانے کے لئے ایسی من گھڑت تحقیق سوشل میڈیا پر ڈال کر لمبی چادر تان کر سو جاتے ہیں۔ افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ اچھے خاصے باشعور افراد بنا تصدیق ان بے بنیاد اور ہولناک جعلی معلومات کو ’اولمپکس مشعل‘ سمجھ کر آگے پاس بھی کرتے جاتے ہیں۔

ایک دوست کا ایمان جاگا اور فرمانے لگا کہ روزے میں لگواؤ گے تو وہ ٹوٹ جائے گا۔ جب ہم نے مفتی اعظم اور علما کمیٹی کے سربراہ الشیخ عبدالعزیز آل شیخ کا فتویٰ بتایا کہ کورونا سے بچاؤ کے لئے ویکسین روزے کی حالت میں بھی لگائی جا سکتی ہے، تو وہ دائیں بائیں بغلیں ایسے جھانکنے لگے جیسے پریس کانفرنس کرتے کسی وزیر سے کوئی صحافی لاجواب سوا ل کر لے۔

اسی عرصے میں 1166 سے پیغام آ گیا کہ فلاں تاریخ کو ویکسی نیشن کرانے کے لئے پہنچ جاؤ۔ سینٹر دیکھا تو اپنے علاقے سے خاصا دور نظر آیا۔ پیغام کے ساتھ سینٹر کی تبدیلی کا بھی اشارہ دیا گیا تھا۔ تبھی ویب سائٹ پر جا کر سینٹر کی تبدیلی بھی کرا دی جو اگلے دو دن کے اندر گھر کے قریب والا ہو گیا۔ بعد میں ایک تجربہ کار رشتے دار نے یہ بھی بتایا کہ ’تصدیقی کوڈ‘ ملنے کے بعد ویکسی نیشن کسی بھی تاریخ کو کسی بھی مقام سے کرائی جا سکتی ہے۔

جوں جوں مطلوبہ تاریخ قریب آ رہی تھی، دل میں وہ وسوسے اور خدشات پھر سر اٹھانے لگے جو کچھ یار دوستوں نے ذہن میں فیڈ کر دیے تھے۔ مسئلہ ہم پاکستانیوں کے ساتھ یہ بھی ہے کہ گذشتہ 70 برس کے عرصے میں جب بھی حکومت کوئی مفاد عامہ کے لئے بلامعاوضہ کام کرتی ہے تو ہماری نفسیاتی حالت یہ ہے کہ ہم اسے لے کر شک و شبہات میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ بدقسمتی سے بہت کم ہی عوامی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کیے گئے ہیں۔

خیر پہلے سوچا کہ ویکسی نیشن سے واقعی راہ فرار اختیار کی جائے۔ عین ممکن ہے کہ یہ تحفظات درست ثابت ہوں۔ دل کو کسی بھی لمحے تسلی و تشفی نہیں ہو رہی تھی۔ سوچا اس قدر احتیاط کرتے ہیں اور زیادہ کر کے ویکسی نیشن اور کورونا سے بچا جا سکتا ہے۔ کیا پتہ جو کچھ احباب بتا رہے ہیں، ان میں کسی نہ کسی طرح سچائی ہو۔ اسی ’سازشی تھیوری‘ نے دل و دماغ پر اس قدر قبضہ کر لیا کہ تہیہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ویکسی نیشن نہیں کرائیں گے۔

اسی سلسلے میں اُن دوستوں سے معلومات بھی لینا شروع کی جو ’ویکسین یافتہ‘ تھے۔ دفتری دوست نعیم الرحمان جو سب سے پہلے فیض یاب ہوئے تھے، ان کا مؤقف الگ تھا، بلکہ انہوں نے خاصی رہنمائی کی۔ ان کے مطابق ہم اُس معاشرے میں رہ رہے ہیں، جہاں منفی باتیں پھیلا کر انسداد پولیو مہم میں بھی رخنہ ڈالا جاتا ہے۔ قطرے نہ پلا کر بچوں کو معذور کرا دیتے ہیں لیکن ’مردانگی‘ متاثر ہونے کے پراپیگنڈے پر یقین کر بیٹھتے ہیں۔

ہمارے ’نیا دور‘ کے ویب ایڈیٹر علی وارثی نے تو زور دے کر یہی کہا کہ جان لیوا وبا سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ احتیاط کے ساتھ ویکسی نیشن بھی کرائی جائے۔ دفتری ساتھی سمیرا علی نے تو باقاعدہ رہنمائی کی ایک ایسی ویڈیو روانہ کر دی، جس میں سیر حاصل معلومات تھیں، جو منفی قیاس آرائیوں کا منہ توڑ جواب بھی کہی جا سکتی ہیں۔ کورونا ویکسین لگانے کی امید افزا اور بامقصد باتیں اشعر علی، آصف غفار اور شاہ رخ احمد نے گوش گزار کیں۔ ایک اور دوست ثاقب علی نے فخریہ بتایا کہ وہ اس بڑے مرحلے کو آج ہی پار کر کے آئے ہیں۔ کوئی ڈرنے یا خوف زدہ ہونے کی بات نہیں۔ ماشا اللہ کوئی سائیڈ ایفکٹس نہیں ہوئے۔ سب مفروضات ہیں، جو عوام کو ورغلانے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ ہم نے ہتھیار ڈالتے ہوئے خود کو بچانے کے لئے ایک داؤ یہ چلا کہ اچھا چلو عید کے بعد لگا لیتے ہیں۔ جس پر ثاقب علی کا کہنا تھا کہ ابھی تو رمضان کی وجہ سے رش کم ہے، عید کے بعد ایک خلقت ہوگی۔ کیسے کراؤ گے؟ معلوم نہیں کہ کتنے دنوں میں نمبر آئے۔ دلیل ٹھوس تھی۔ جس نے اچانک ہمارے اندر ایک نئی تحریک اور ولولہ و جوش پید ا کر دیا۔

مطلوبہ تاریخ پر ہم قریبی ویکسی نیشن سنٹر پر جانے کا اٹل فیصلہ کر بیٹھے۔ پہلے پہل یہ خیال بھی آیا کہ کسی صحافی دوست سے رابطہ کر کے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قطار اور دوسرے جھنجٹ سے بچتے ہوئے ویکسی نیشن کرا لیں لیکن پھر سوچا کہ ’وی آئی پی‘ بننے کے بجائے ’عوامی‘ انداز میں یہ کام کیا جائے۔ اسی لئے مطلوبہ تاریخ کو صبح سویرے ساڑھے سات بجے اس خیال سے گھر سے نکلے کہ فٹا فٹ نمبر لے کر فارغ بھی ہو جائیں گے۔ گنگناتے ہوئے سنٹر پہنچے تو دماغ بھک سے اڑ گیا۔ کوئی ڈیڑھ سو کے قریب مرد اور خواتین ہوں گے، جن کی الگ الگ قطاریں لگی تھیں۔ جو انتظار میں تھے کہ کب ٹوکن ملے گا۔

کوئی آٹھ بجے کے قریب ٹوکن ملنے کی خوش خبری ملی۔ ہمارا 164واں نمبر تھا۔ جسے دیکھ کر یہ لگا کہ لو بھائی آج کا پورا دن گیا۔ چند لمحوں بعد ٹوکن یافتہ افراد کو ایک بڑے سے گارڈن میں بٹھا دیا گیا۔ جہاں کرسیاں سماجی فاصلے کا خیال رکھتے ہوئے لگائی گئی تھیں۔ بیشتر افراد وہ تھے جو دوسری خوراک لگانے کے لئے سینٹر آئے تھے۔ معلوم ہوا کہ مذکورہ سینٹر روزانہ 300 افراد کی ویکسی نیشن کا کام کر رہا ہے۔ مطلوبہ تعداد پوری ہونے کے بعد ٹوکن کی تقسیم بند کر دی جاتی ہے۔

کرسی پر پہلو بدلتے ہوئے قریب بیٹھے صاحب نے بتایا کہ ویکسی نیشن کا عمل ساڑھے نو بجے اُس وقت شروع ہوتا ہے، جب ڈاکٹر اور ان کا دیگر طبی عملہ آتا ہے۔ ذہن بنا چکے تھے کہ آج تو دفتر کی چھٹی یقینی ہے۔ اسی دوران حکم یہ ملا کہ ٹوکن کی پشت پر ’تصدیقی کوڈ‘ لکھ لیا جائے۔ گھڑی کی سوئیوں کو بار بار دیکھا جا رہا تھا۔ گھر قریب تھا، اسی لئے سوچا کہ کیوں نا آدھا ایک گھنٹے آرام کر کے آ جائیں اور پھر کچھ ایسا ہی کیا۔

کوئی ساڑھے نو بجے ہم پھر ویکسی نیشن سینٹر پر پھر آ دھمکے، معلوم ہوا کہ ابھی تک آغاز نہیں ہوا۔ لیکن پانچ چھ منٹ بعد ہی ایک ہرکارہ آیا، جس نے ایک سے لے کر دس نمبرز والوں کو طلب کر لیا اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔ کبھی دس تو کبھی پندرہ افراد کو ایک ساتھ بلا لیا جاتا۔ دس بجے کے قریب سو افراد فارغ ہوچکے تھے۔ خود کو پرسکون کیا کہ دفتر سے ناغہ نہیں ہوگا۔ عین ممکن ہے کہ ہم بارہ بجے تک فارغ ہو ہی جائیں۔

اور پھر آخر کار ہمارا نمبر بھی آ ہی گیا۔

انجانے خدشات تو اب تک دامن گیر تھے لیکن انہیں پرے دھکیلتے ہوئے ہم ایک ہال نما کمرے میں داخل ہو چکے تھے۔ جہاں جابجا مختلف میزیں سجی تھیں۔ جن کے آس پاس خواتین اور مرد ڈاکٹرز کا ایک گروپ براجمان تھا۔ ہال میں آنے کے بعد ایک اور نشست گاہ پر بٹھایا گیا۔ جس کے چند لمحوں بعد ہم ڈاکٹرز کے ایک گروپ کے مدمقابل تھے۔ جنہوں نے ’ تصدیقی کوڈ‘ کے بعد ایک کارڈ پر ہماری تفصیلات درج کیں اور پھر کارڈ تھماتے ہوئے فرمایا کہ اگلی ڈوز کے لئے آپ کو ایس ایم ایس آ جائے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک جانب جانے کا اشارہ کیا جہاں نرس کو دیکھ کر لگا جیسے وہ ہمارے ہی انتظار میں ہیں۔

نرس نے انتہائی ملائم انداز سے ہمارے بائیں بازوں کے اوپر ی حصے پر ’سائنو فارم‘ ویکسین لگائی اور حکم دیا کہ باہر جا کر پانچ منٹ انتظار کریں۔ اگر کوئی گڑبڑ محسوس کریں تو فوراً اطلاع دیں۔ ساتھ ہی نرس صاحبہ نے یہ بھی کہا اگر بخار آئے تو پیناڈول کھا لیجئے گا۔ دل کو تسلی ہوئی تو کچھ لمحے باہر بیٹھ کر آرام کیا اور پھر فخریہ انداز میں گھر کی راہ لی۔ اب ساری کارروائی کے دوران ہم ٹیکا لگاتے ہوئے تصویر بنوانا بھول گئے۔ جس کا ہمیں واقعی ملال رہے گا لیکن ساتھ ہی شکر ادا کیا کہ ایک بڑا کام کر گزرے۔

واپسی پر ہم نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی کارکردگی کو واقعی پذیرائی کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے جس کے انتظامات انتہائی قابل فخر ہیں۔ این سی او سی نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر ملک بھر میں بطریق احسن کورونا ویکسی نیشن کی ذمے داری نبھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر اب تو سینٹرز کے بارے میں سیر حاصل معلومات مل رہی ہیں جس کے ذریعے کوئی بھی گھر بیٹھے یہ معلوم کر سکتا ہے کہ اسے ویکسی نیشن کے اس عمل سے کس طرح گزرنا ہوگا۔ خوشی کی خبر یہ ہے کہ حال ہی میں سندھ حکومت نے ایکسپو سینٹر کراچی میں 24 گھنٹے خدمات انجام دینے والے ویکسی نیشن سینٹر کا آغاز کر دیا ہے جس کے ذریعے یومیہ 30 ہزار ویکسین کی خوراک لگائی جا رہی ہیں۔

تو جناب جو افراد چالیس کی حد پار کر چکے ہیں، پہلی صورت میں اس کام کے لئے وقت ضرور نکالیں، یقین کریں کہ بہت آسان مرحلہ ہے۔ ساتھ ساتھ اُن منفی سوچ رکھنے والوں کی باتوں پر ہرگز کان نہ دھریں جن کا کام ہی بس ’سازشی تھیوری‘ گھڑنا ہے، کیونکہ ہمیں بخار ہوا اور نہ ہی کسی قسم کی اور گڑبڑ۔ آپ ایس او پیز پر عمل کر رہے ہیں تو بہت ہی اچھا ہے لیکن کورونا کو شکست دینے کے لئے احتیاط کے ساتھ ویکسی نیشن بھی یاد رکھیں جو بہت زیادہ ضروری ہے۔