بلوچستان میں سیاحت کے فروغ کیلئے غیر ملکیوں کو سہولیات دینا ضروری

بلوچستان میں سیاحت کے فروغ کیلئے غیر ملکیوں کو سہولیات دینا ضروری
گزشتہ چند برسوں سے ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل سیاحت سے وابستہ ہے اور تباہ شدہ معیشت کو سیاحت سے سہارا دیا جا سکتا ہے، پھر ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ بلوچستان سیاحوں کیلئے ایک بہترین جگہ ہے، خاص طور پر ساحلی پٹی اور ہنگول نیشنل پارک بین الاقوامی سیاحت کیلئے موزوں ترین ہیں۔

بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی چند سالوں سے ٹورازم، ٹورازم کا راگ الاپتی رہتی ہے۔ حال ہی میں دبئی ایکسپو کیلئے بغیر ٹینڈر کے 25 کروڑ روپے بھی جاری کئے گئے تاکہ غیر ملکی سیاحوں کو یہاں راغب کیا جاسکے۔

سوشل میڈیا پر ایک غیر ملکی خاتون ٹریول بلاگر کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی جو اکیلے ساحلی علاقہ میں سفر کر رہی تھی، اُس جیسی ویڈیوز دیکھ کر کچھ سیاحوں نے ہنگول نیشل پارک دیکھنے کافیصلہ کیا اور پھر ان کی آگے کی کہانی کچھ یوں ہے ؛

سب سے پہلے کوئٹہ شہر جا کر ہوم ڈپارٹمنٹ سے سیاحوں کیلئے ایک این او اسی لینا پڑتا ہے۔ اگر آپ خوش قسمت ہیں تو آپ کو یہ این او سی تین سے چار دن میں شاید مل جائے گا، ورنہ پندرہ، بیس دن بھی لگ سکتے ہیں۔

جہاز کا ٹکٹ، ہوٹل کے بل، بد اخلاق سرکاری ملازمین سے واسطہ، کچھوے کی طرح چلنے والا سست پراسیس آپ کو سیاحتی مقام پر جانے سے پہلے ہی ایک نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے۔

این او سی ملتے ہی ایک عظیم فتح کا احساس ہوتا ہے لیکن جلد ہی آپ کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ یہ فتح اور خوشحالی عارضی تھی، ابھی ذلت کے مقام اور بھی ہیں۔

سیاح ہنگول جانے کیلئے کراچی سے بلوچستان کے شہر حب داخل ہوئے اور قانون کے مطابق این او سی مقامی تھانے میں دکھائے ہیں تاکہ انھیں سکیورٹی فراہم کی جا سکے۔ آٹھ سیاحوں کیلئے تین پولیس موبائلیں اور بیس کے قریب سپاہی فراہم کئے۔

یہ تمام سیاح سکیورٹی کے ہمراہ ہنگول نیشنل پارک میں واقعہ کنڈ ملیر کے ساحلی علاقہ پہنچے اور ایک کیمپ سائیڈ پر اپنا پڑائو ڈالا۔ کچھ ہی دیر میں ایس ایچ او کا فون آیا جو کہ یہ چاہتا تھا کہ سیاح اس کی مرضی کے ہوٹل میں قیام کریں اور وہ اُس بات پر زبردستی اصرار کرتا رہا، کبھی کہتا کہ علاقہ ٹھیک نہیں، تو کبھی کہتا کہ یہاں دہشتگردی کا خطرہ ہے۔

غیر ملکی سیاح پریشان کہ یہ کیا ہو رہا ہے، آخر کار معاملہ ڈی سی لسبیلہ تک پہنچا تو انھوں نے سیاحوں کی اس مسئلہ سے جان خلاصی کی جس کیلئے وہ یقیناً تعریف کے حقدار ہیں۔

اب دوسرا مرحلہ اُن غیر مہذب، غیر تربیت یافتہ سپاہیوں کا تھا جن کی نظریں سیاحوں کی جیبوں پر لگی ہوئی تھیں۔ انھیں خرچ، پیٹرول، کھانا سب کچھ چاہیے تھا اور جب رات کو سکیورٹی کرنی تھی تو سیاحوں سے پہلے وہ سپاہی جا کر سو گئے۔ انھیں سکیورٹی فراہم کرنے سے زیادہ باقی تمام چیزوں مین دلچسپی تھی، وہ سکیورٹی کے نام پر وبال جان بن گئے تھے۔

میرا اپنا یہ خیال ہے کہ اگر خدانخواستہ کوئی مسئلہ پیش آجائے تو سب سے پہلے یہ سب بھاگیں گے۔ سفارش اور رشوت پر بھرتی ہونے والے ان سکیورٹی اہلکاروں میں کوئی قابلیت دور دور تک نظر نہیں آ رہی تھی۔

اب میری حکومت سے یہ گزارش ہے کہ برائے مہربانی یا تو ٹورازم ختم کر دیں یا پھر سیاحوں کو ایک بہترین ماحول فراہم کریں جو کہ ہمارا فرض بنتا ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کر ہمارے علاقوں میں آنے والے سیاح ہمارے مہمان ہیں اور وہ یہاں ذلت نہیں سیاحت کیلئے آتے ہیں، ہمیں انھیں سہولیات فراہم کرنا چاہیے، اخلاق سے پیش آنا چاہیے اور اُن کے مسائل حل کرنے کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔

یہ این او سی ایک ای میل پر بھی جاری کیا جا سکتا ہے، سکیورٹی کے نام پر پان، گٹکے کھانے والے لالچی عملہ کی بجائے انسان دوست اور ملک کی عزم کا خیال کرنے والا عملہ بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔

مصنف عرصہ 22 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔