’’چار درویش اور ایک کچھوا‘‘۔۔۔۔۔ رنگ برنگ دنیا کی سیاحت کرواتا ناول

مصنف یہ باور کروانے میں کامیاب رہے ہیں کہ کسی بھی حقیقت کے بیک وقت کئی پہلو ہو سکتے ہیں

چار سال کی محنت اور ریاضت کا پھل ’’چار درویش اور ایک کچھوا‘‘ منظرعام پر آچکا ہے۔ یہ ناول سید کاشف رضا نے لکھا ہے اور کمال لکھا ہے۔ اس نثر پارے میں معتبر لکھاریوں کی تحریر والی چاشنی تو ہے ہی بلکہ یہ اپنے اندر خوبصورت اور متنوع زندگیاں بھی سموئے ہوئے ہے۔ آپ صفحہ در صفحہ پڑھتے جائیں اور آپ کو کہانی بلکہ یوں کہئے کہ مرکزی کہانی کے گرد بنی گئی کہانیاں پرت در پرت کھلتی ہوئی ملیں گی۔

ذرا ٹھہریئے اور رک کر غور کیجئے تو آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ ’’چار درویش اور ایک کچھوا‘‘ جو کہ پانچ مرکزی کردار ہیں اور ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے ' وہ راوی کی موجودگی میں اپنی اپنی اور ایک دوسرے کی کہانی سناتے ہیں۔ اس تکنیک کے ساتھ یہ ناول آپ کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ کسی بھی حقیقت کے بیک وقت کئی پہلو ہو سکتے ہیں اور سب کے سب اپنے سیاق و سباق کی وجہ سے درست بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر مطلق درست نہ بھی ہوں تو سیاسی طور پر درست ضرور ہوتے ہیں۔ یقیناً کہانی سنانے والے کی اپنی ایک سیاسی اور سماجی پوزیشن ہوتی ہے جس کے باوصف وہ اپنے ماضی کو اخفا اور اشتہار کا جامہ پہناتا جاتا ہے۔

سید کاشف رضا کا تعلق چونکہ کیمرے اور پروڈکشن کے شعبہ سے ہے تو اس لئے وہ زاویہٴ نگاہ کی مدد سے تجربہ کی وسعت کو کہانی کے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حقیقت اور حقیقت کی ترجمانی جیسے فلسفیانہ مسئلہ کو ناول میں جگہ دی ہے۔ بہرحال یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ مصنف تمام کرداروں کے جذبات اور خیالات کو قاری تک دلچسپ انداز سے پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں۔

مصنف نے اس ناول میں اپنے کرداروں کے ذریعے اور ان کی زندگی سے متعلق جانکاری کو گہرائی میں لے جانے کے لئے مختلف افسانوں، ناولوں، فلموں، اور علمِ نفسیات کی وضاحت کو خوبصورتی سے برمحل استعمال کیا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس فکشن نے حقیقت میں پنجے گاڑھ رکھے ہیں لیکن فکشن کو علیحدہ بھی رکھا ہے۔ اس سے ہوتا یوں ہے کہ پڑھتے ہوئے حقیقی اور تصوراتی دنیا کے کنارے آپس میں ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ میری دانست میں یہ اس تحریر کا اہم خاصہ ہے اور یہ قاری کو ناول کے ساتھ مسلسل چپکائے رکھتا ہے' اس وعدے کے ساتھ کہ کہانی کا حظ اٹھانے کے ساتھ ساتھ علم میں بھی اضافہ ہو گا۔ ایک دو مقامات پر کہیں فلم یا ناول کے کرداروں پر بحث کچھ طوالت اختیار کر جاتی ہے لیکن اس سے کہانی کا پلاٹ متاثر نہیں ہوتا۔



اب آتے ہیں اس ناول کے مرکزی تصورات اور بیانیوں کی طرف۔ ایک مرکزی تصور تو جیسا اوپر بیان کیا، وہ Perspective میں تنوع کا ہے۔ دوسرا، مذکورہ ناول ایک طرف تو اپنے کرداروں کے جنسی اور رومانی رویوں کو کھولتا جاتا ہے  اور اس کے ساتھ ہی یہ ملک کی سیاسی اور سماجی بنت کے تانے بانے بھی عیاں کرتا ہے۔ کرداروں اقبال اور جاوید اقبال کے جنسی میلانات میں کافی حد تک ہم آہنگی ہے اور وہ قدرے کھلے ہوئے یا بولڈ ہیں۔ یہ دو کردار مردوں کے ان عمومی رویوں کی بھی عکاسی کرتے ہیں جنہیں Feminism والے عورت کی تحقیر کے پیرائے میں دیکھتے ہیں۔ جب کہ آفتاب اقبال کے یہاں ہچکچاہٹ کا پہلو نمایاں ہے اور وہ رومانویت کو وسیع معنوں میں دیکھتا ہے، اس کے رومانس میں انسانیت ہے جبکہ طرزِ معاشرت کی کئی قدریں رکاوٹ ڈالتی ہیں لیکن اس کردار میں عورتوں سے زیادہ عورت سے تعلق واضح نظر آتا ہے۔ یہاں ایک کردار بالے کا بھی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بالے کی خاص پیدائشی اور سماجی حیثیت کی بنا پر جس میں اس کو معاشرے کی لعن طعن برداشت کرنی پڑتی ہے اور وہ کسی حد تک اقلیت بن کر رہ جاتا ہے، اس کو مزید چار چاند لگائے جا سکتے تھے۔ ہو سکتا ہے اس کے جنسی میلان میں دھنک رنگ شامل ہو جاتا تو یہ کچھ اور حقیقتوں سے پردہ بھی اٹھا سکتا تھا۔

اس ناول میں ایک ثانوی کردارصادق یا کُکی بھائی کا بھی ہے۔ وہ خواب دیکھتا ہے اور اسے اپنے ارد گرد پھیلی حقیقتوں کا بظاہر علم سا ہو جاتا ہے۔ اسے ایک بیل والے کے متعلق بھی خواب آتا ہے جو مختلف واقعات جیسا کہ ایک بڑی قد آور سیاسی شخصیت پر قاتلانہ حملے اور پھر ان کے قتل میں استعمال ہوتا ہے۔ سید کاشف رضا نے نہایت خوبصورتی سے اس کردار کے ذریعے ہمارے کلی معاشرتی شعور کے غیر موثر ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ کردار قاتل اور دوسرے کج رو کرداروں کے بارے میں آگاہ بھی ہے لیکن کچھ کر نہیں سکتا۔ یہ ایک نہایت سادہ ذہن کا معمولی سا انسان ہے۔ اور جب یہ شور مچاتا ہے تو اس کی بات کا کوئی یقین بھی نہیں کرتا اور لوگ اسے دیوانہ سمجھتے ہیں۔ یہ ہماری سماجی اور سیاسی سوچ اور کردار سے متعلق نہایت دلچسپ علامت ہے۔

آخر میں یہ کہ مکمل ناول پڑھ کر ذہن میں مجموعی تاثر کیا بنتا ہے؟ ناول پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ ایک رنگ برنگ دنیا گھوم آئے ہیں جو آپ کے ارد گرد کہیں موجود تھی لیکن آپ اس کے ان رنگوں سے یوں واقف نہ تھے۔ اور اب، جہاں سے آپ نے ناول شروع کیا تھا، آپ وہاں پر ہی نہیں کھڑے بلکہ انسانی رویوں اور معاشرتی بنت کے کچھ مزید دلچسپ راز آپ تک پہنچ چکے ہیں۔ آپ نے سفر کیا ہے اور آپ کی سوچ سمجھ اب نئی وسعتوں اور جہتوں کی تلاش کے لئے تیار ہے۔ میں اس تبصرے کو اقبال عظیم کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں کہ:

یہ تخیلات کی زندگی، یہ تصورات کی بندگی


فقط اک فریبِ خیال پر، مری زندگی ہے رواں دواں