Get Alerts

'بنت حوا پنجرے میں' پابند سلاسل رہنے والی خواتین کیسی زندگی گزارتی ہیں؟

'بنت حوا پنجرے میں' پابند سلاسل رہنے والی خواتین کیسی زندگی گزارتی ہیں؟
ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔صنف نازک کے حقوق ،صنفی مساوات ، معاشی استحکام ، روزمرہ زندگی کے نمایاں حقوق کے مطالبات ، حقوق کی ادائیگی کے وعدے کیے جاتے ہیں اور پھر اگلے ہی روز وہی پُرانی معمول بن جاتی ہے ۔گھریلو تشدد، مقام کار پر ہراسگی، جائیداد میں حقوق نہ دینا وغیرہ وغیرہ اُسی طرح جاری رہتا ہے جیسا کہ سال کے بقایا 364 دنوں میں ہوتا ہے ۔ ہر سال سینکڑوں سیمینارز منعقد کرائیں جاتے ہیں اور یہ بارو کرایا جاتا ہے کہ آنے والے دن خواتین کی ترقی و خوشحالی کی نئی سورج لےکر طلوع ہوں گی مگر ہر آنے والا دن اُس سے ابتر ہوتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں عورتوں کے خلاف پائے جانے والی کافی سفاک رسومات ہیں جن میں وٹہ سٹہ، غگ، جہیز سرفہرست ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بالعموم 95 فیصد خواتین جہیز کے نام پر لمبی لمبی فہرستوں کا شکار ہوتی ہیں جو اُن کے نفسیاتی زندگی کو بُری طرح متاثر کرتی ہیں اور ساتھ ہی معاشرے میں کئی بگاڑ کا موجب بنی ہے۔

ایک طرف خواتین کو بالعموم مختلف نوعیت کے جرائم کا شکار ہوتی ہے ساتھ ہی وہ خود بھی کئی قسم کے جرائم میں ملوث پائی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2021ء اواخر تک پاکستان کی مختلف جیلوں تقریباً 1300 خواتین قیدی ہیں جن میں تقریباً 66 فیصد کو تاحال سزایاب نہیں کیاگیا کیونکہ اُن کے مقدمات زیرسماعت ہیں۔ ان میں سے 300 کے قریب ایسی خواتین ہیں جن کو اُنکے رہائشی اضلاع سے دور دیگر اضلاع میں قید رکھا گیا ہےجن سے اُن کے خاندان والوں کے ساتھ ملنا مشکللات کا سامنا ہے ۔پاکستان کے قانون میں کل ایسے 33 جرائم ہیں جن میں سزائے موت دی جاتی ہے، عام طور پر خواتین کو قتل، دہشت گردی، اغواکاری اور منشیات سمگلنگ کے جرائم میں موت کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ اسی طرح اقلیت برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کو توہین مذہب کے جرائم میں سزائے موت دی جاتی ہیں۔ انسان اور جرائم کا تعلق ازل سے شروع ہے اور بدستور جاری ہے۔ مردوں کی بالا دست معاشروں کے علاوہ ایسے معاشرے جہاں پر صنفی مساوات کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے، اُن معاشروں یا ممالک کی خواتین بھی جرائم میں شریک رہتی ہے۔

عالمی اعداد وشمار کے مطابق ساڑھے سات لاکھ سے زائد خواتین ولڑکیاں دنیا بھر کی جیلوں میں قید کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ خواتین ہانگ کانگ میں جرائم میں ملوث پائی جا کرقید میں ہیں۔ اسکے بعد امریکہ ، چائنہ ، روس ، برازیل میں خواتین کی ایک کثیر تعداد جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے جیلوں میں قید ہے۔

ہمارے معاشرے کے نفسیاتی پہلووں کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین جو اپنے خاوند یا خاندان کے افراد کے قتل میں ملوث پائی جاتی ہیں وہ طویل جسمانی تشدد، مرد حضرات کا خواتین پر مالی طور پر منحصر ہونے جیسے مسائل کا شکار رہتی ہیں۔ ایسی ہی وجوہات دنیا بھر کے کسی بھی ملک میں خواتین کا اپنے خاوند ، یا خاندان کے افراد کے قتل کی مؤجب ہیں۔ اسی کے ساتھ ہمارے ہاں مشہور بہانہ اور وجہ اپنے خاوند کو قتل کرنے کا یہ بھی ہے کہ قاتل خاتون کا اپنے خاوند کے علاوہ کسی غیر مرد کو ساتھ دوستانہ مراسم چلتے رہتے ہیں اور پھر وہ خاوند کے قتل پر منتج ہوتی ہے۔

صنفی عدم مساوات ، انتقام ، غصہ ، حسد ، خواتین کو با اختیار نہ بنانا ایسی وجوہات ہیں جو کمزور ، ان پڑھ خواتین کو جرائم میں ملوث ہونے کے لئے Catalysts کا کام کرتی ہے جو بعد میں منشیات سے منسلک جرائم ، چوری اور قحبہ حانہ چلانے کے جرائم میں ملوث پائی جاتی ہیں۔ معاشی عدم استحکام بھی ایک ایسا پہلو ہے۔ جسےکسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے بالعموم جسم فروشی، چوری، خواتین کے بٹوے چھینے جیسے جرائم معاشی عدم استحکام کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ میری مرد حضرات سے گزارش ہے کہ اپنے گھروں کے خواتین کو با اختیار بنائیں ۔ اُن کو مالی مشکلات کا سامنا کرنے کی بجائے انہیں معاشی طور پر مستحکم بنایا جائے۔ بنگلہ دیش کی مثال واضح ہے جہاں پر خواتین کو کام کرنے کی اجازت ہے۔وہاں پر معاشرتی اُصول آڑے نہیں آتی ہے۔


میری ملاقات چند ایسی خواتین سے ہوئی ہے جن کا جرائم میں ملوث ہونا اپنی رضامندی کے باعث نہیں تھا بلکہ بسا اوقات اُنھیں پارٹنر کی جانب سے جرائم میں ملوث ہونے کی آفرز کی گئی اور مشہور دھوکہ معاشی استحکام لانے کا بہانہ ہوتا ہے ۔جو حوا کی بیٹی ایسی جرائم میں ملوث ہو کر اپنی بقایا زندگی سلاخوں کے پیچھے گزارتی ہے، ایسی خواتین زیادہ تر منشیات سمگلنگ میں لوث رہی ہیں۔

ہمارے ہاں جیلوں میں تقریباً 85فیصد صرف قتل ، منشیات سمگلنگ کے جرائم میں ملوث ہوکر پابند سلاسل ہیں اور ان میں چند ایسی خواتین ہوتی ہیں جو اپنے خاندان کو مالی مدد فراہم کرتی ہے خواتین کا جیل جانے سے پہلے سب سے دشوار مرحلہ پولیس کی تفتیش ہوتا ہے، جرائم میں ملوث خواتین کی اتنی بے عزتی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ بیشتر خواتین کو ماضی میں پولیس کی جانب سے جنسی تشدد ، غیر محسوس طریقے سے چھونا ،گالم گلوچ ،رشوت ،معاشرتی بے عزتی کا شکار بنایا گیا۔ اب چونکہ حالات آہستہ آہستہ تبدیلی کی طرف گامزن ہیں تقریباً ہر تھانہ میں خواتین پولیس CCTVکیمروں کی موجودگی کے باعث ایسے واقعات میں کمی آئی ہے۔ سال 2006 سے 2012 تک تقریباً 12فیصد خواتین ملزمان کو پولیس کی طرف بالا بیان کی گئی تشدد کا شکار بنایا گیا تھا مگر آہستہ آہستہ ایسی واقعات میں کمی رونما ہو رہی ہے، سوشل میڈیا ،عوام کا قوانین تک رسائی اور تعلیم ان کی چند وجوہات ہیں۔

اسی طرح چند واقعات کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اکثر اوقات گھر کے سربراہ یا علاقہ عمائدین کی طرف سے مُلزمہ خاتون پر دباؤ رکھ کر اقراری بیان قلمبند کرواتے ہیں چونکہ یہ سراسر قانونی تقاضوں کے مطابق نہیں ہے اور پھر مذکورہ خاتون اپنی بقایا زندگی قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتی ہے۔

دیگر خطوں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی خواتین جرائم کے ساتھ منسلک ہو جاتی ہیں ۔صوبہ خیبر پختو نخواہ کے دارلخلافہ پشاور میں واقع سنٹرل جیل میں اس وقت تقریباً 80سے زائد خواتین قیدی ہیں، ایک ایسے معاشرے میں جہاں پر معاشرتی اقدار ہمیشہ سے مقدم اور اولین ترجیح رہے ہیں وہاں پر بھی خواتین چھوٹے موٹے جرائم سےلے کر بڑے جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں، ۔ایک ایسا معاشرہ جہاں پر مردوں کی بالا دستی ہے اُس معاشرے میں قتل و غارت ایک عام سی بات ہے۔ جتنے لوگ مہلک امراض سے موت کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں اُتنے ہی لوگ قتل کی وجہ سے بھی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

چند سال قبل خیبر پختونخواہ کے صوبائی اسمبلی کی خواتین ممبران نے سنٹرل جیل پشاور کا دورہ کیا جس کی آمد پر تفصیلی رپورٹ باقاعدہ شائع کی گئی ۔جس میں جیل میں خواتین کے لئے ناکافی سہولیات ،انسانی حقوق کی بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کو واضح کرایا گیا مگر حکومتی نمائندے ہونے کے باوجود تا حال اُن مسائل کو نہ حل کیا گیا اور نہ بہتری لائی گئی ۔سنٹرل جیل پشاور میں خواتین کے لئے ایک سیکشن مخصوص کیا گیا ہے جن میں قیدی خواتین زمین پر لیٹ کر سوتی ہے ۔جن میں اکثر کیساتھ پانچ سال سے کم عمر کے بچے بھی ہے۔بستروں کی عدم فراہمی کے باعث مجبوراً یہ خواتین زمین ہی پر سوتی ہیں۔اس کے علاوہ خواتین قیدیوں کے لئے مین جیل سے کھانا ملتا ہے کیونکہ خواتین سیکشن میں کوئی خاص کیچن نہیں۔مرکزی بارک کے علاوہ دو B کلاس کمرے ہیں جو کہ ایلیٹ خواتین قیدیوں کو رکھنے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں خیبر پختونخواہ حکومت نے خواتین کے لیے الگ جیل بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔

خواتین کے لئے ایک ووکیشنل سنٹر بھی ہے جن میں ان کو سویٹر وغیرہ بننا سکھایا جاتا ہے جسکو پھر وہ مرکزی جیل میں بیچنے کیلئے بھجواتے ہیں۔اس کے علاوہ خواتین اور اس کے بچوں کیلئے تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے۔مردان سنٹرل جیل کی خواتین قیدیوں کی اندرونی تصویر کافی وائرل ہو چکی تھی جن میں ایک خواندہ خاتون قیدی دیگر خواتین اور بچوں کو پڑھائی کر رہی تھی ۔حکومتی سطح پر ایسے دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے کہ جیلوں میں مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیمی سرگرمیاں بڑھائی جائے تاکہ سزا کاٹ کر وہ ایک کارآمد شہری بن سکے۔

کریمنل جسٹس سسٹم میں کسی فرد کا جرم کے بعد سزا کے طور پر جیل جانے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ وہ صرف قید وبند کے تکلیفیں برداشت کر سکیں ۔بلکہ اس کا بنیادی مقصد اس کو یہ احساس کرانا کہ جرم کے بعد کی زندگی بھی بہتر بن سکے اور اس کے لئے جیلوں میں کسی ماہر نفسیات کیساتھ باقاعدہ سیشنز منعقد کرائیں۔

جرم کے بعد عدالت کے ذریعے سزا کے طور پر جیل جانے کے بعد بیشتر خواتین قیدیوں کو بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتی ہے۔ غذائی پروگرام کی کمی اکثر حاملہ عورتوں کیلئے اور اس کے آنے والے بچے کیلئے مسائل بناتی ہے۔ ہر جیل میں بہترین غذائی پروگرام کو نافذ کر کے صحت مند معاشرے کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جیلوں میں کھلے عام کرپشن بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ قیدیوں کے پاس موبائل فون رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی مگر جیل حکام کی ملی بھگت سے انہی قیدیوں کو موبائل فون مل جاتے ہے اور چند دن بعد جیل کے اعلیٰ اہلکاروں کی طرف سے چھاپہ مارا جا کر وہی موبائل ضبط کئے جاتے ہیں۔ اور پھر کچھ دن بعد وہی موبائل دوبارہ اتنے ہی داموں فروخت کیا جاتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جرم کے سزا کے طور پر قید وبند کی تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہے مگر جن مقصد کیلئے انہیں عدالتی احکامات کے ذریعے جیل بھجوایا جاتا ہے وہ مقاصد کھبی پورے نہیں ہوتے کیونکہ جیلوں میں سہولیات کا فقدان ،تعلیم کی کمی اور اصلاح کی بجائے مزید تذلیل ہوتی ہے ۔لہذا یہ امید رکھنا غلط ہے کہ یہ ملزمان باہر نکل کر دوبارہ ایک کارآمد زندگی گزار سکیں گی۔

ارباب اختیا ر سے اپیل ہے کہ خدا را اس قوم کے مستقبل پر رحم کیجیئے۔ پورے ملک میں صرف صوبہ سندھ میں خواتین قیدیوں کی سہولیات عالمی معیار کے مطابق ہے۔ خواتین قیدیوں کیلئے قانونی امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی جائے جو جیل قوانین ،سہولیات کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کیلئے سفارشات مرتب کرے۔ فوری بنیادوں پر جیل ریفارمز کرکے جیل میں قید خواتین کی حالت زار کو مزید ابتر ہونے سے بچایا جاسکے، اس کے علاوہ والدین کو اپنی بچیوں کے تعلیم پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیئے۔ شادی کرتے وقت اس کی رضا مندی پوچھنی چاہیئے۔ ایک خاتون جو کہ شادی کے تین سال بعد دوسرے مرد کے ساتھ گھر چھوڑ کر چلی گئی نکاح در نکاح کے جرم میں تعزیرات پاکستان کے دفعہ 494 کے تحت مقدمہ چلا جا یا کر جیل میں قید رہی۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ اس کا سابقہ شوہر نامرد تھا۔ اسی شوہر کیساتھ رہتے ہوئے اس کا ایک بچہ بھی تھا مگر بعض اوقات دھوکہ فریب میں آکر ایسی اقدامات اٹھاتی ہے جو کہ پوری خاندان اور آنے والے نسلوں کےلیے باعث پریشانی ہوتی ہے ۔ لہذا شادی سے قبل اپنے بچیوں سے پسند نا پسند کے بارے ضرور پوچھنا چاہیئے تاکہ مستقبل میں کسی دوسرے مسئلہ میں گھیرے جانے سے بچ سکیں۔

مصنفہ ایک ماہر نفسیات ہیں جو بچوں، نوجوانوں اور خواتین کو مختلف نفسیاتی مسائل پر مشاورت فراہم کرتی ہے۔ وہ مختلف ٹی وی چینلز پر بھی نفسیاتی مسائل پر لوگوں کو آگاہی دیتی ہے۔ نفسیاتی مسائل پر ان کے مضامین مختلف اخبارات میں بھی شائع ہوتے ہیں۔