سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اراضی کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل کنونشن سینٹر میں ہونے والے سیاسی اجتماع میں بیٹھے رہے مگر کیس کی پیروی کیلئے عدالت میں پیش نہ ہوئے، انہوں نے ریمارکس دئیے کہ ایڈووکیٹ جنرل پورے صوبے کا ہوتا ہے یا کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوتا ہے؟
انہوں نے سماعت کے دوران کہا کہ وزیر اعظم کسی ایک جماعت کے وزیر اعظم نہیں ہوتے بلکہ عوام کے وزیر اعظم ہوتے ہیں انکے عہدے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ سیاسی جماعتوں کے کنونشن میں شرکت کریں۔ انہوں نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل بھی اپنا کام چھوڑ کر اس سیاسی کنونشن میں چلے گئے وہ بھی سرکار کے ملازم ہیں کسی سیاسی جماعت کے نہیں۔ انکا کہنا تھا کنونشن سنٹر سرکاری بلڈنگ ہے وہاں سیاسی جماعتوں کے کنونشن ہونا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بتایا جائے کہ کنونشن سنٹر کو استعمال کرنے کی فیس جمع کروائی گئی ہے یا نہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب وکلاء کی تقریب کی وجہ سے وہاں گئے۔ جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی آئینی عہدیدار ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کرسکتا ہے؟ کیا اسلامک ری پبلک آف پاکستان میں ایسا ہوسکتا ہے؟
معزز جج نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ آپ اپنی رائے دینے سے گریزاں ہیں، قرآن میں ہے کہ گواہی دو چاہے تمہارے والدین کے خلاف ہی کیوں نا ہو۔ معزز جج نے کہا کہ کہ عدالت کی رہنمائی کی جائے کہ کیا وزیر اعظم ایسی تقریب میں شرکت کر سکتے ہیں؟ کیا وزیر اعظم سرکاری خرچ پر نجی تقریبات میں شرکت کر سکتے ہیں؟
تاہم عدالت نے وزیر اعظم کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اٹارنی جنرل، ایڈوولیٹ جنرل اور اسلام آباد انتظامیہ کو بھی نوٹس جاری کر دیا ہے۔ عدالت نے وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل، صدر سپریم کورٹ بار اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کوبھی رہنمائی کیلئے طلب کرلیا۔