لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ چھوڑ دیا جبکہ وزیراعظم نے ان کا استعفیٰ بھی منظور کرلیا ہے۔ عاصم سلیم باجوہ نومبر 2019 میں سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین تعینات کیے گئے تھے۔ جبکہ اپریل 2020 میں انہیں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات تعینات کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی ایک ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ میں نے وزیراعظم عمران خان سے درخواست کی تھی کہ مجھے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کے اضافی عہدے سے دستبردار ہونے دیں۔ جس پر انکی درخواست کو منظور کر لیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان کے معروف تحقیقاتی صحافی احمد نورانی کی جانب سے فیکٹ فوکس نامی ایک ویب سائٹ پر اسٹوری نشر ہونے کے بعد عاصم سلیم باجوہ نے وزیراعظم عمران خان کو اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا جسے وزیراعظم عمران خان نے قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے عاصم سلیم باجوہ کو معاون خصوصی کے عہدے پر کام جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی
عاصم باجوہ کی پہلی تعیناتی کے وقت تو کسی حلقے کی جانب سے خاص بات نہیں سامنے آئی۔ تاہم جیسے ہی عاصم سلیم باجوہ نے مکمل طور پر سیاسی ڈومین میں قدم رکھا اسی دن سے انہیں سیاسی طوفان کا سامنا تھا۔
سیاسی حلقوں میں عاصم باجوہ کی یہ تعیناتی تنقید کی زد میں رہی ہی رہی لیکن یہ صحافی احمد نورانی کی خبر ہی تھی جس نے اہل سیاست مخالف کو ایک نئی مہمیز بخشی اور اپوزیشن کی جانب سے عاصم باجوہ کیس کو احتساب میں تعصب اور اقربا پروری کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ اب صحافتی و سیاسی حلقوں میں تو یہ زبان زد عام ہے کہ جنر ریٹائرڈ عاصم باجوہ کی تعیناتی حکومتی ایما سے زیادہ مقتدر حلقوں کی اشیر باد سے ہوئی ہے۔ جسے بچانا حکومت کے اپنے پورٹ فولیو کے لیئے بھی ضروری ہے۔ اسی سلسلے میں پہلے پہل اپوزیشن کی گولہ باری کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں عاصم سلیم باجوہ پر لگنے والے الزامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا اور ہم نے ان کے جواب کا جائزہ لیا ہے۔ اور وہ اس سے مطمئن ہیں۔ اور ساتھ ہی تنقید کرنے والوں کو ایک مفت مشورہ دیا کہ جس کو اعتراض ہے وہ عدالت چلا جائے یا نیا الزام لائے۔
اب اس سب کے بعد اچانک اس استعفے اور اسکی عامیانہ سی منظوری نے نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ ایک جانب وہ حلقے ہیں جو کہتے ہیں کہ عاصم باجوہ کا یہ استعفیٰ بتا رہا ہے کہ اندرون خان معاملات گڑ بڑ ہیں اور یہ اپوزیشن کی سیاسی تیر اندازی کے بہ ہدف ہونے کا ثبوت ہے۔ تاہم دوسری جانب حکومتی حامی سوشل میڈیا پر کہتے پائے جا رہے ہیں کہ دراصل اس ستعفیٰ کے بعد اپوزیشن کے شور شرابے کی کوئی وجہ نہیں رہ گئی اور اس پیش رفت نے اسکے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔
اب معاملہ کچھ بھی ہو، سچ تو یہ ہے کہ ایک استعفیٰ ہونے کے بعد اب یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ اگر کوئی شخص اسکے اثاثوں کے بارے میں انکشافات کے بعد استعفیٰ دے دے جسے خود وزیر اعظم دفاع کر کے ایک بار پھر قبول کر لے تو ایسے میں اس شخص کے پاس موجود دوسرے اہم ترین عہدے پر تعیناتی کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ یہ معاملہ ایک استعفیٰ تک نہیں رکے گا۔۔۔ بلکہ بات دور تک جائے گی۔