حقوق خلق موومنٹ کے زیر اہتمام مختلف سماجی تحریکوں کا اجلاس،ایک مشترکہ بڑی تحریک چلانے کا فیصلہ

حقوق خلق موومنٹ کے زیر اہتمام مختلف سماجی تحریکوں کا اجلاس،ایک مشترکہ بڑی تحریک چلانے کا فیصلہ
لاہور میں حقوق خلق موومنٹ کے زیر اہتمام مختلف سماجی تحریکوں کے رہنماوں کا اجلاس طلب کیا گیا۔ اس اجلاس میں طلبہ، مزدور، اساتذہ، جرنلسٹ، خواتین ، ڈاکٹرز اور وکلاء سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنان نے شرکت کی ۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ عام عوام کی فلاح و بہبور پر مبنی پیپلز چارٹر آف ڈیمانڈ کی بنیاد پر تمام تحریکیں یکجا ہو کر حکومت کے خلاف ایک بڑی تحریک کا آغاز کریں گی۔ اجلاس میں طلبہ نے آن لائن کلاسوں، کوٹے میں کمی، اور فیسوں میں اضافے جیسے مسائل بیان کئے، مزدور نمائندوں نے کرونا کے باعث شدید معاشی جبر اور مزدوروں کی بنیادی تنخواہ جیسے مسائل بیان کئے، اساتذہ نے پے سکیل اور تنخواہیں میں عدم بڑھوتری کے مسئلے کو اجاگر کیا، پنجاب یونین آف جرنلسٹ کے نمائندوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی سنسرشپ اور صحافیوں کو تنخواہوں کی عدم عدائیگی کا مدعہ پیش کیا۔ اجلاس میں حقوق نسواں کیلئے چلنے والی تحریکوں کے نمائندگان نے شرکت کی اور خواتین اور خواجہ سراوں کے مسائل اور حالیہ جنسی تشدد پر ایوان کو آگاہ کیا۔ اجلاس میں ہنزہ میں سیاسی قیدی بابا جان کی بہن نازنین نیاز نے شرکت کی اور اکابرین کو ہنزہ کے سیاسی قیدیوں اورانکے ورثاء کے دھرنا سے آگاہ کیا۔

اجلاس میں طے کیا گیا کہ 2 نومبر کو ڈے آف ایکشن کے تحت  پنجاب اسمبلی کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ لگایا جائے گا اور آئین کی شق 38 پر عمل درآمد کرانے پر زور دیا جائے گا۔ اجلاس میں ابراہیم فیبریکس فیصل آباد کے نکالے گئے مزدوروں کو بحال کرنے اور ان کے خلاف مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس نے سائبر کرائم قوانین کا سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف استعمال کی شدید مذمت کی۔ اجلاس میں سندھ کے دو جزیروں پر وفاق کے قبضے کی شدید مذمت کی گئی اور موجودہ حکومت کو نااہل ترین قرار دیا گیا اور روز بروز بڑھتی مہنگائی کی شدید مذمت کی گئی۔اجلاس میں شریک تمام اکابرین نے ہنزہ میں بابا جان و دیگر سیاسی اسیران کو فی الفور رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ مزدور رہنماوں کے مسائل کو سمجھتے ہوئے تمام اکابرین نے 35  ہزار کم از کم اجرت کا مطالبہ کیا۔ شرکاء نے اجلاس میں ہسپتالوں کی نجکاری کی مخالفت کی گئی اور تمام شہریوں کو صحت کی تمام سہولیات مفت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔اجلاس کے دوران تعلیمی بجٹ کٹوٹیوں کی شدید مذمت کی گئی اور پنجاب یونیورسٹی میں فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کے کوٹہ کو ختم کرنے کی مذمت کرنے اور اسے فوری بحال کرنے پر زور دیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرنے والوں میں حنا جیلانی، نگہت خان، عمار جان، ضیغم عباس، محمد تحسین، فاروق طارق، امتیاز الحق، محسن ابدالی، نازنین نیاز، قمر بھٹی، بابا لطیف انصاری، اسلم معراج، خالد محمود، نیاز خان و دیگر شامل تھے۔