Get Alerts

تنازعات سے بھرپور ایک اور 'دورِ انصاف' تمام ہوا، گڈ بائے مسٹر بندیال

عدلیہ میں واضح دراڑیں پیدا ہونا، ججز کا فیصلوں اور بنچز پر مسلسل سوال اٹھانا، پارلیمان کی جانب سے ہونے والی قانون سازی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، اپنے معاملات کو چلانے سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے فیصلہ نہ کرنا اور من پسند معاملات پر فیصلہ نہ کر کے رخصت ہونے پر شرمندگی کا اظہار کرنا بھی اس دور انصاف کا کارنامہ ہے۔

تنازعات سے بھرپور ایک اور 'دورِ انصاف' تمام ہوا، گڈ بائے مسٹر بندیال

پاکستان میں نظریہ ضرورت کا آغاز فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر سے ہوا۔ اکتوبر 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی اور اس اقدام کو جائز قرار دینے میں جسٹس اے ایس ایم اکرم، جسٹس محمد شریف اور جسٹس ایس اے رحمٰن بھی شامل تھے جبکہ جسٹس کارنیلئس نے اس سے اختلاف کیا تھا۔ پھر ٹھیک 3 سال بعد جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے سکندر مرزا کے ساتھ مل کر مارشل لاء لگایا تو چیف جسٹس محمد منیر نے اپنے پیش کئے گئے نظریۂ ضرورت سے بھی آگے بڑھ کر طاقت سے اقتدار پر کئے قبضے کو جائز قرار دیا اور اب جسٹس کارنیلئس بھی اختلاف نہ کر سکے۔ یہ اس سیاہ باب کا آغاز ہے اور اس کے بعد متعدد مقدمات کے متنازع فیصلے ہوئے کہ جنہوں نے سیاست اور معاشرے پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔

انہی میں سے ایک فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کا قتل کیس میں ٹرائل ہے۔ سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو 1974 میں قتل کیے گئے سیاست دان اور صدارتی امیدوار احمد رضا قصوری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ابتدائی طور پر لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ چلایا گیا اور چیف جج مولوی مشتاق حسین نے انہیں پھانسی کی سزا سنائی۔ پھر اس سزا کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس پر عدالت نے فیصلہ دیا کہ پھانسی کی سزا آرمی چیف اور صدر ضیاء الحق ہی تبدیل کر سکتے ہیں لیکن بھٹو نے یہ راستہ نہ لیا اور یوں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے مداخلت نہ کئے جانے پر آج تک عدالت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس پھانسی کو عدالتی قتل کہا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے خاتمے اور مارشل لاء کے نفاذ کی توثیق بھی اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے کی گئی۔

اکتوبر 1999 کے جنرل مشرف کے اقدامات کے سبب عدلیہ اور جنرل مشرف آمنے سامنے آ گئے۔ چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی آئین کے تحت اٹھائے گئے حلف پر بضد رہے تو جنرل مشرف پی سی او کے تحت نئی عدلیہ کی خواہش رکھتے تھے اور یہ تنازعہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں بیک وقت چلتا رہا اور کئی جج پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کر چکے تھے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کے پی سی او شدہ چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں قائم 11 رکنی بنچ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے، ایمرجنسی کے نفاذ، ان کے نافذ کردہ پی سی او اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے پی سی او کے تحت حلف لینے کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سناتا ہے اور اس بنچ میں جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی شامل تھے جو بعد میں چیف جسٹس آف پاکستان ہوئے اور پھر پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت 7 ججز کو ہٹا دیا اور یوں یہ برطرفی عدلیہ بحالی تحریک میں بدل گئی لیکن افتخار چوہدری کا 12 مئی 2000 کا فیصلہ ان کا منہ چڑاتا رہا جس میں انہوں نے غیر آئینی اقدامات کی توثیق کی تھی۔

جون 2009 میں سپریم کورٹ کی جانب سے پروژنل کانسٹی ٹیوشنل آرڈر کے تحت آئی عدلیہ سے متعلق اپنے فیصلے میں جنرل مشرف کے 3 نومبر 2007 کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا جو آئینی فیصلوں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ پھر ایک اور منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی اور سزا کا معاملہ بھی اعلیٰ عدلیہ کیلئے نیا تنازع لایا جبکہ شریف فیملی کا پاناما پیپرز میں نام آنے کے بعد عدلیہ کے طرز عمل نے سب کو حیران کیا۔ نگران جج کی تعیناتی اور پھر ٹرائل کے مرحلے پر مسلسل مداخلت نے کیس کو سیاسی کیسز کی تاریخ کا متنازعہ ترین کیس بنا دیا۔ ججز کورٹ روم میں موجود صحافیوں کو دیکھ کر ریمارکس دیتے اور یہ ریمارکس ٹی وی سکرینز پر سب سے پہلے چلانے کی جنگ چلتی۔ اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان نے سڑک پر گاڑیاں روک کر فیصلے صادر فرمانا شروع کئے۔ فلاح عامہ کیلئے بنائے گئے اسپتال بند کروا دیے گئے۔ دودھ دہی اور مکھن کے معیار کو پرکھا جانے لگا۔ لیکن انصاف کا ترازو ہٹو بچو کے شور میں کہیں گم ہو کر رہ گیا اور ہر جاتا شخص اپنے بعد والے کو مزید الجھن میں ڈال کر رخصت ہوتا رہا کہ وہ پچھلے سے ایسا کیا بڑا کام کرے کہ ممتاز ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کورٹس کے اندر دیے گئے دلائل سے کہیں زیادہ سڑکوں پر موجود شور نے ان عدالتوں کو چلایا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال کا بطور چیف جسٹس دور تنازعات کا شکار رہا۔ پاکستان کے 22 ویں وزیر اعظم کیلئے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کیلئے وقت اور تاریخ دینے سے 'گڈ ٹو سی یو' کا سفر حیران کن رہا۔ مخصوص سیاسی سوچ کا غم و غصہ محبت میں تبدیل ہونا شاید لاکھوں کروڑوں لوگوں کی دعاؤں کا ثمر رہا۔ آئینی تشریح کے ذریعے پنجاب کی وزارت اعلیٰ من پسند فریق کی جھولی میں ڈالنے کا فیصلہ بھی اس 'دور انصاف' کا منہ دیکھتا رہا۔ ججز کی آڈیوز کا آنا لیکن ان ججز کا متنازع ہو جانے والے بنچز کا حصہ بنے رہنا اور سینیئر ترین جج کا چیمبر ورک میں مصروف رہنا بھی اسی دور انصاف کا خاصا ہے۔

عدلیہ میں واضح دراڑیں پیدا ہونا، ججز کا فیصلوں اور بنچز پر مسلسل سوال اٹھانا، پارلیمان کی جانب سے ہونے والی قانون سازی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، اپنے معاملات کو چلانے سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے فیصلہ نہ کرنا اور من پسند معاملات پر فیصلہ نہ کر کے رخصت ہونے پر شرمندگی کا اظہار کرنا بھی اس دور انصاف کا ہی کارنامہ ہے۔ اب اس دور انصاف کے خاتمے کے بعد آئین پاکستان سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ وہ آئین کے سپریم دور کا انتظار کر رہا ہے۔ نظریہ ضرورت اور دور انصاف کے بیچ سیاسی جماعتوں کا کردار، نادیدہ قوتوں کی سہولت کاری اور رضامندی بھی ایک چیلنج رہا لیکن آئین کے تحت چلنے والے کسی بھی معاشرے میں انصاف کا ایک ہی معیار ہوتا ہے اور اس معیار کی بحالی اور آئین کی واپسی اس رخصت کے ساتھ ناگزیر ہوتی جاتی ہے۔

عبید اللہ صدیقی گذشتہ ایک عشرے سے پاکستان کے مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ بطور اینکرپرسن کام کر رہے ہیں اور مختلف موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں۔