کرونا وائرس: موٹر وے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا مسافروں کے ساتھ رویہ درد سر بن گیا

کرونا وائرس: موٹر وے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا مسافروں کے ساتھ رویہ درد سر بن گیا





کرونا وائرس کو لے کر وفاقی اور صوبائی حکومتیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے قوانین نافذ کرانے میں مصروف ہیں۔ تاہم انتظامی ابہام اور افراتفری سے عام شہریوں کی زندگی اجرین ہوگئی ہے۔ ایسے میں ایک شہرینے نیا دور کو لکھا کہ

  11اپریل 8 بجے کر قریب ایم 5 سکھر پر ایک کربناک صورتحال سے گزرا، میں، میرا بیٹا اور بیٹی  رات ایک بجے کراچی سے نکلے۔ بیٹی کا میاں قانون نافذ کرنے والے ادارے میں افسر ہے۔ بیٹی کو ایک بہت اہم کام کے لئے پنجاب گھر آنا تھا۔ آپ لوگ جانتے ہیں ایئر پورٹس وغیرہ بند  ہیں۔ ‏اس کے میاں کو موجودہ حالات کے پیش نظر چھٹی نہیں ملی، طبیعت خرابی کے باوجود میں بیٹے کے ساتھ کراچی گیا تاکہ بیٹی کو بائی روڈ لا سکوں، اس کے میاں نے اپنے آفس سے لیٹر بھی دیا جس میں میرا اور میرے بیٹے کے این آئی سی نمبر بھی درج تھے۔ ہم تینوں رات کو کراچی سے نکلے، کراچی حیدرآباد ‏ایم 9 پر ہمیں کسی نے نہیں روکا نہ سفر کرنے سے منع کیا، نہ ہی کہا کہ ایک کار میں دو سے زائد لوگ سفر نہیں کر سکتے۔جب ہم 450 کلومیٹر کا سفر طے کرکے سکھر ایم 5 پر پہونچے تو وہاں ڈیوٹی پر موجود لوگوں نے مجھ سمیت کم از کم پچاس گاڑیوں کو روکا ہوا تھا۔


میں نے اس کو ادارے کا لیٹر بھی ‏دکھایا لیکن وہ ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھا کہ ایک گاڑی میں دو سے زیادہ لوگ سفر نہیں کر سکتے، اس عرصہ میں کچھ گاڑیوں کو اس نے "اکاموڈیٹ" بھی کیا انھیں جانے دیا لیکن ہم لوگوں کو درجنوں گاڑیوں کے ہمراہ روکے رکھا، سخت پریشانی اور تھکن کے عالم میں میری طبیعت خراب ہو گئی، بیٹی نے اپنے ‏میاں سے رابطہ کیا۔ اس نے پتہ نہیں کس طرح ہمیں آدھے پونے گھنٹے کی مغزماری کے بعد سفر کی اجازت لے دی، میں موٹر وے پولیس  کے ارباب اختیار سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک ملک ہے ایک محکمہ ہے پھر دو قانون کیسے ہیں؟

اگر ہم واقعی کوئی غیر قانونی کام کر رہے تھے تو ہمیں کراچی سے ہی ‏کیوں نکلنے دیا اور اگر یہ قانون نہیں تو سکھر میں ایم 5 پر موجود افسر فرعون کیوں بنا ہوا تھا۔  یہ کیا طریقہ ہے کہ ایک موٹر وے  پر چار سو کلومیٹر سفر کے بعد آپ فیملیز کو اس طرح تنگ کر رہے ہیں اور پھر بعد میں خوار کر کے اجازت بھی دے رہے ہیں۔ میں نے اس کے بعد جب ایم 5 پر سفر شروع ‏کیا تو کچھ دیر بعد اور گاڑیاں بھی نظر آئیں جن میں سفر کرنے والوں کی تعداد تین سے بھی زائد تھی کیا ان گاڑیوں کو بھی اثر و رسوخ کی بنا پر اجازت ملی یا ایم 5 سکھر کا عملہ رشوت لے کر انھیں چھوڑ رہا تھا۔


اور اگر واقعی دو سے زیادہ لوگوں کا ایک کار میں سفر ممنوع ہے تو آغاز سفر میں ہی اس ‏کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے ؟ کیوں آدھے سفر کے بعد لوگوں کو خوار کیا جارہا ہے کہ آپ سفر جاری نہیں کر سکتے ۔۔۔ یہ کھلم کھلا یا تو محکمانہ نا اہلی ہے یا اختیار کا ناجائز استعمال، موٹر وے پولیس ان چند محکموں میں سے ایک ہے جن کی ریپوٹیشن بہتر ہے، اس طرح کی کالی بھیڑوں کا محاسبہ کر کے ‏اس نسبتاً بہتر محکمے کو بچایا جائے اور پاکستان کے ہر سرے میں ایک ہی قانون کو رائج کیا جاسکے۔