کراچی کے ساحل سمندر پر ہزاروں ایکڑ پر لگے تمر کے درخت کے اقسام دن بدن ختم ہوتے جا رہے ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس وقت تمر کے جنگلات کو کئی خطرات لاحق ہے۔
ماہرین کے مطابق ساحل سمندر پر لگے تمر کے درختوں کی 8 اقسام تھیں جو اب چار رہ گئی ہیں۔ بنیادی طور پر تمر کی درخت ختم ہونے کی اہم وجہ اس کی کٹائی، صنعتی فضلے کا سمندر میں چھوڑنا، بھینسوں کے باڑوں کا فضلہ سمندر میں پھینکنا اور موسمی تبدیلیاں ہیں۔
محکمہ جنگلات کے مطابق اس وقت ساحل سمندرپر 60 ہزار ہیکٹر پر تمر کے درخت لگے ہوئے ہیں، جس میں تقریباً 80 فیصد، سندھ اور 10 سے زائد فیصد بلوچستان کے صوبے میں آتے ہیں۔ تمر کے درخت آکسیجن کی فراہمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔ ان جنگلات میں مچھلیاں انڈے دیتی ہیں اور جھینگے سمیت دیگر اقسام کی آبی حیات بھی پائی جاتی ہیں۔
ان مسائل کی وجہ سے سمندر میں مچھلی نہ ہونے وجہ سے ماہی گیر اپنے روزگار کا متبادل ڈھونڈنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب ماہی گیر سینکڑوں مچھلیاں اپنے جال میں لے کر روانہ ہوتے تھے۔ مگر اب وہی مچھیرے مچھلی مایوسی سے واپس لوٹ کر آتے ہیں۔
ماہر جنگلات بابر حسین کا کہنا ہے کہ یہاں پر لگے تمر کے جنگلات ساحل کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ درخت ساحل پر بائیولوجیکل وار کے طور کام سرانجام دیتے ہیں۔ اگر آپ ساحلوں پر کنکریٹ کی دیوار کھڑی کرنا چاہیں تو آپ ایسا نہیں کرسکتے کیوںکہ یہاں دلدل ہے۔ تمر کے درخت اپنی جڑوں کے ذریعے ایک دوسرے کو آپس میں ملاتے ہیں جس سے ان کی گرپ مضبوط رہتی ہے۔ یہ ایک قدرتی نرسری ہے، جس میں جھینگے اور مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تمر کے جنگلات ہماری کوسٹ ایریاز کے لیے بہت زیادہ ضروری ہیں۔ ان جنگلات سے ہمیں آکسیجن ملتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے مقامی لوگوں کو جھینگے اور مچھلیاں مل رہی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا اگر ٹھیک طریقے سے ہم نے ایک ہیکٹر پر مشتمل مینگروز کے درخت کو ایک سال تک بچا لیا تو ہمیں 360 ہزار 500 ڈالر کا فائدہ ہوگا۔ کچھ سال پھلے مینگروز کو بچانے کے لیے ہم توجہ نہیں دی مگر اب اس کو بچانے کے لیے توجہ دی جارہی ہے اور اس کی دیکھ بھال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
کراچی کے ساحل سمندر پر بسنے والے ماہی گیر اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے لوگ گیس نہ ہونے کی وجہ سے تمر کے درخت کاٹ کر گھر کا چولہا جلاتے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ مافیا بھی سرگرم ہے جو ان درختوں کو کاٹ کر بڑی بڑی فیکٹریوں کو بھاری رقم میں فروخت کرتے ہیں۔
مقامی لوگوں سے تمر کے درخت کاٹنے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا جواب کچھ یوں تھا کہ ہم کیا کریں یہاں پر تو گیس ہی نہیں ہے۔ ہماری تو مجبوری ہے۔ ہم تمر کے درخت کی لکڑیاں کاٹ کر گھر کا کھانا پکاتے ہیں۔ یہاں لوگ تمر کے جنگلات کاٹ کر فروخت کرتے ہیں جنھیں کوئی روکنے والا نہیں ہے؟ ہم گیس نہ ہونے کی باعث تمر کے جنگلات کی لکڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ باقی ہماری میں خرید وفروخت نہیں ہے۔ ساحل سمندر کے میٹھے پانی میں فضلہ اور گندا پانی چھوڑنے کی وجہ سے مچھلی کے اقسام ختم ہونے سمیت سمندری حیات اور تمر کے جنگلات کا نقصان ہوا ہے۔
سماجی تنظیم فشرفوک کے رہنما کمال شاہ کا کہنا ہے کہ اس وقت ساحلی پٹی سے لے کر ابراہیم حیدری تک کہیں کہیں آپ کو تمر کے بڑے درخت دکھائی دینگے مگر جب اندر جائینگے تو آپ کو کچھ نظر نہیں آئیگا۔ کیونکہ لوگوں نے اندر سے تمر کے جنگلات کو کاٹ دیا ہے۔ یہاں بڑی مافیاز موجود ہیں جو ایک منظم اور متحرک طریقہ سے کام کر رہی ہیں۔ جس میں لینڈ مافیا، مینگروز مافیا اور پورٹ قاسم مافیا شامل ہیں۔
کراچی میں مینگروز یعنی تمر کے درخت ختم ہونے کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ سمندری آلودگی ہے۔ سمندری آلودگی کی وجہ سے سمندری حیات شدت سے متاثر ہو رہی ہے۔ اسی وجہ سے تمر کے درخت بھی تیزی کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں۔ تمر کے درختوں کو بچانے اور سمندری حیات کو محفوظ کرنے کے لیے لازمی ہے کہ مقامی افراد کو سمندری حدود سے درختوں کو کاٹنے سے روکا جائے۔ اس سے سمندری حیات کو بچایا جا سکتا ہے اور مینگروز کی افزائش بڑھائی جا سکتی ہے۔
محکہ جنگلات کے مطابق سمندر کی ساحلی پٹی کے ساتھ 15 لاکھ ایکڑ پر مشتمل تمر کے درخت میں تین گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے جبکہ محکمے کی جانب سے جنگلات لگائے جا رہے ہیں اور تمر کی اقسام پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔ سمندر کے میٹھے پانی انڈسٹریل ویسٹ، سمندر میں پلاسٹک پھینکنا اور دیگر فضلے تمر کی جڑوں میں جذب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے بھی ان کو نقصان ہو رہا ہے۔
ایسی صورتحال میں ناصرف تمر کے جنگلات ختم ہو رہے ہیں بلکہ ماہی گیروں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ ماہی گیروں کا روزگار صرف سمندر پر ہی منحصر ہے جہاں پر اب مچھلی اور جھینگے سمیت آبی حیات ختم ہوتی جا رہی ہے۔
حکومت اور دیگر اداروں کو چاہیے کہ وہ اس طرف فوری طور پر توجہ دیں انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ سمندری مخلوق اور حیات کو محفوظ کرنا ہے۔ سمندری حیات ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کے لیے بھی ضروری ہے۔ درختوں کو کاٹنے سے روکنا بہت ضروری ہے۔ اگر حکومت نے اس طرف توجہ نہ دی تو ماحولیاتی آلودگی کا شہروں میں بہت بڑا طوفان آجائیگا اور انسانی زندگی پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔