آفتاب اقبال اپنی پرسنالٹی بنانے کے لیے دوسروں کو روندتا جا رہا ہے۔ انسان کو اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بننا چاہیے۔ اپنے اور اپنے باپ کے علاوہ بھی لوگوں کی عزت کرنی چاہیے۔ آفتاب اقبال چھوٹا آدمی ہے، اس کی سوچ چھوٹی ہے۔ یہ نہ کہو کہ فلاں کو میں نے بنایا ہے، فلاں کو بھی میں نے سکھایا ہے۔ انسان میں عاجزی ہونی چاہیے۔ آفتاب اقبال سے کینیڈا میں کسی نے پوچھا کہ تم نے سہیل احمد کو کیوں چھوڑ دیا تو اس نے جواب دیا کہ میں نے سہیل احمد سے کہا تھا حسبِ حال لائیو کرنا ہے مگر سہیل احمد نے جواب دیا کہ میں لائیو نہیں کر سکتا۔ کوئی اسے بتائے کہ میں 30 سال لائیو شو کرتا رہا ہوں، اب تم مجھے لائیو شو کے بارے میں بتاؤ گے؟ یہ کہنا ہے معروف کامیڈین، سٹیج اور ٹی وی اداکار سہیل احمد کا۔
یوٹیوب پر میزبان احمد علی بٹ کے ہمراہ پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے سہیل احمد نے بتایا لوگ کہتے ہیں کہ ٹی وی پروگرام آئے ہیں تو کامیڈی کرنے والوں کو شہرت ملی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ مجھے تو پروگرام 'حسبِ حال' نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اگر آپ کہیں کہ میں صرف اس پروگرام سے مشہور ہوا ہوں تو ایسا نہیں ہے۔ مجھے 'حسبِ حال' سے 3 یا 4 سال پہلے ہی صدارتی ایوارڈ مل چکا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس نے مجھے دبا دیا ہے اور میں اس میں پھنس گیا ہوں کیونکہ میں جو کام بھی کرتا ہوں، پورے دل و جان سے کرتا ہوں۔ حسبِ حال کو 15 سال ہو گئے ہیں اور اب تک 200 سے زائد گیٹ اپ کر چکا ہوں۔ تین ہزار سے زائد شو ہو گئے اور ایک ہی جگہ مستقل مزاجی سے کام کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ کبھی چھوڑ کر کہیں چلا گیا تو کبھی کہیں۔ آفرز بہت ہوئیں۔ لیکن میں نے خود کو پوری طرح 'حسبِ حال' تک محدود کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں؛ شو میں کسی اور اداکار کو بلانے پر سہیل احمد کو موت پڑنے لگتی تھی؛ آفتاب اقبال
سہیل احمد کا کہنا تھا کہ آفتاب اقبال کامیڈینز کی درجہ بندی کرنے والا کون ہوتا ہے؟ یہ تو خود ان کامیڈینز سے سیکھنے آتا ہے۔ وہ کون سا پہلے سے ہی سیکھا ہوا آیا ہے۔ سنا ہے کہ پہلے بیوروکریٹ تھا۔ 12، 14 کالم بھی لکھے۔ یہ سب اس کی اپنی پسند تو ہو سکتی ہے کہ میں اچھا ہوں یا امان اللہ اچھا ہے۔ بھئی امانت چن کسی کو مجھ سے بہت زیادہ اچھا لگ سکتا ہے۔ ناصر چنیوٹی کو چاہنے والوں کا ایک بہت بڑا حلقہ ہے۔ آفتاب اقبال کو اس طرح نہیں کہنا چاہیے۔ اس کو فیصلے نہیں دینے چاہئیں۔ یہ بات تو امان اللہ بھی مانتا تھا کہ میں نے ہی انہیں کہا تھا کہ کامیڈین کے طور پر ان کی کیٹگری بلندی سے بھی اوپر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آفتاب اقبال یوں تو محنتی آدمی ہے۔ شو بھی بہت اچھا ہے۔ بیشک وہ گیارھویں مہینے ہی شو چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ یوں تو بہت عزت کرتا ہے اور جب بھی ملتا ہے، احترام سے حال احوال پوچھتا ہے لیکن شاید جذباتی ہو کر ایک دو باتیں ایسی کہہ جاتا ہے جو مجھے بری لگیں۔ کینیڈا میں کسی نے آفتاب اقبال سے پوچھا کہ آپ نے سہیل احمد کو کیوں چھوڑا، تو اس نے جواب میں کہا کہ میں یہاں بیٹھا ہوں اس لیے۔ پھر سوال ہوا اس کا کیا مطلب ہے تو آفتاب اقبال نے جواب دیا کہ میں سہیل احمد سے کہتا تھا کہ حسب حال لائیو کرنا ہے اور وہ کہتا تھا کہ میں لائیو نہیں کر سکتا۔ بے وقوف آدمی، میں 30 سال سے لائیو پرفارمنس ہی دیتا رہا ہوں۔ لائیو پرفارمنس کا مجھے کیا بتا رہے ہو؟ تم تو بہت بعد میں انڈسٹری میں آئے ہو۔ بس ایسی باتیں ہیں جو وہ جذباتی ہو کے کر جاتا ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
سہیل احمد نے بتایا کہ آفتاب اقبال نے ایک اور عجیب بات کی۔ وہ گفتگو کرتے ہوئے اتنا 'چوڑا' ہو جاتا ہے جس پر مجھے ہنسی آتی ہے۔ میں اسے شروع سے 'کھوچل' (میسنا) کہتا تھا اور وہ واقعی کھوچل ہے۔ ابھی اس نے 'کسوٹی' جیسا پروگرام بنایا ہوا ہے۔ اس میں اس نے شخصیت بوجھنے کے لیے کسی کو میرے نانا کا کہہ دیا۔ سب کچھ وہ پلان کر کے کرتا ہے۔ میں پاگل تو نہیں ہوں نا۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر جس کو ایوب خان کے دور میں بابائے پنجابی کہا گیا، تم اپنے شو میں اس انسان کو کس طرح سے ڈیل کر رہے ہو؟ پنجاب یونیورسٹی میں ان کے نام کی چیئر ہے اور وہ یونیورسٹی میں پنجابی ڈیپارٹمنٹ کا آغاز کروانے والے ہیں۔ سارے پنجابی صوفیانہ شاعروں کے کلام کی کتابت انہوں نے کی تھی۔ لڑکے نے پوچھا کہ شاعر ہیں تو آفتاب اقبال نے کہا کہ نہیں۔ انہیں شاید خبر نہیں کہ ان کی 42 کتابیں شاعری کی ہیں۔ جب کوئی نہیں بُوجھ سکا تو آفتاب اقبال کہتا ہے کہ ہمارا ایک کامیڈین ہے سہیل احمد، اس کے نانا یا دادا ہیں فقیر محمد۔ ٹھیک سے نام بھی نہیں لے رہا۔ ایسے مت کرو۔ جب اللہ کی چھت گرتی ہے تو بڑے بڑے اس کے نیچے دب جاتے ہیں۔ اپنے اور اپنے والد کے علاوہ بھی کسی کو عزت دو۔ اوپر سے جاہلوں والی بات کر رہا ہے کہ سہیل احمد ہمارے گھر پہلی بار آیا تھا تو اس نے مٹھائی والا ٹوکرا اٹھایا ہوا تھا کہ ڈاکٹر فقیر صاحب نے ظفر صاحب کے لیے بھیجا ہے۔ ڈاکٹر فقیر صاحب تو 1974 میں انتقال کر گئے تھے۔ میری اور آفتاب اقبال کی ملاقات 1980 کے اختتام پر ہوئی۔ انہوں نے کیا قبرستان سے آپ کے لیے مٹھائی بھیجی تھی؟
سہیل احمد کے مطابق میں سوچتا ہوں کہ میں نے اس کو بجا طور پر 'کھوچل' کہا تھا۔ یہ اپنے آپ کو، اپنی شخصیت کو بنانے کے لیے سب کو روندتا جا رہا ہے۔ جو بچے سٹوڈیو میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ اپنی فیس اور معاوضے کے لیے 'واہ کیا بات ہے' کی آوازیں لگاتے رہتے ہیں۔ کبھی میرے سامنے بیٹھو تو میں تمہیں بتاؤں کہ تمہارے ہونٹ خشک ہونے کب بند ہوئے تھے۔ اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بننا چاہیے۔ مجھے وہ لوگ پاگل لگتے ہیں جو خودنمائی کرتے ہیں۔ میں حلفاً کہتا ہوں۔ اس میں کوئی تکلف نہیں ہے۔
سہیل احمد نے مزید کہا میں نے اب تک 100 سے زیادہ ڈرامہ سیریل کیے ہیں۔ چھ سات سو سے زیادہ تھئیٹر ڈرامہ کیا ہے۔ 15 سال سے حسب حال کر رہا ہوں۔ میں تو کبھی کسی کو بتا ہی نہیں سکا کہ حسب حال کا کون سا کردار مجھے اچھا لگتا ہے یا کون سا میں نے اچھا کیا ہے۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ آگے کی طرف دیکھو۔ کیوں وہیں پھنس کر بیٹھے ہو؟ کیوں بچوں کی یا جونیئرز کی تضحیک کرتے ہو۔ اگر تمہاری یا تمہارے چند ایک لڑکوں کی وجہ سے تمہارا پروگرام چلتا ہے تو اکیلے بیٹھ کے کرو پروگرام۔ اکیلے بیٹھ کر اپنا پروگرام ہٹ کرتے نا۔ جس پروگرام کے لیے اچھے کامیڈین نہیں ملے تمہارا وہ شو فلاپ ہوا۔ اب تماری پوری ٹیم اچھی ہو گئی ہے۔ تمہیں اچھا شو ملا ہے۔ میں کیا حسب حال اکیلا کرتا ہوں؟ بالکل بھی نہیں۔ میں ٹیم کے ساتھ کرتا ہوں۔ ایک بار میں اسے کہا بھی تھا کہ پانی یا چائے پلانے والے کا بھی ٹیم میں اتنا ہی حصہ ہے جتنا تمہارا اور میرا ہے۔ اگر آپ دل میں عاجزی رکھیں تو آپ کو یہ چیزیں نظر آتی ہیں۔ ہم نے لائٹ مین کو دیکھا ہے یوسف خان صاحب کو جھاڑتے ہوئے۔ کسی کی جرات نہیں تھی کہ ان کو کچھ کہے لیکن سینئرز کے سامنے وہ بھی خاموش رہتے تھے۔
سہیل احمد کا کہنا تھا کہ فوری طور پر میرے ذہن میں آتا ہے کہ آفتاب اقبال بیچارہ چھوٹا آدمی ہے۔ اس کی سوچ چھوٹی ہے۔ میں نے کبھی ایسی باتیں نہیں کیں، نا ہی کرنا چاہتا ہوں لیکن چونکہ وہ میرا جونیئر ہے اس لیے میں اسے سمجھانا چاہتا ہوں کہ ایسے نہیں کرتے۔ سب کی عزت کرو۔ تم مہنگی گھڑی یا مہنگے بوٹ دکھا کر شو اچھا نہیں چلا سکتے۔ تم ان فنکاروں کی وجہ سے اچھا شو کر رہے ہو جو تمہارے ساتھ ہیں۔ تم نے اپنے شو سے بڑے بڑے لوگوں کو اٹھایا ہے۔ جب ہم فنکار مشہور ہوتے ہیں تو بہت بولنے لگتے ہیں۔ انسان میں عاجزی ہونی چاہیے۔ اپنے فنکاروں کو چھوٹا دکھانا بند کرو۔