پاکستان میں سیاسی کھیل کا گڑھ اکثر لوگ پنجاب کو کہتے ہیں،پنجاب کو اس لیے کیونکہ پنجاب پاکستان کی حکومتوں کی کامیابی کا فیصلہ کرتا ہے۔ حکومت کو عروج دیتا ہے اور انہیں زوال پر لاکھڑا کرتا ہے۔
آپ میاں محمد نواز شریف کی پی ایم ایل (این) کو دیکھیئے،پنجاب نے انہیں عزت بخشی۔ نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی سیاست سے شروع ہو کر تین بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ انہوں نے خوب سیاست کی اور پہاڑِ عروج کو بھی چھوا۔ لیکن وہ اقامہ کی بنیاد پر تاحیات نا اہل ہوئے اور اسی طرح آج مسلم لیگ ن اپوزیشن میں ہے۔
دوسری جانب نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے بھی پنجاب کی سیاست میں نام کمایا۔ تین بار خادمِ اعلی پنجاب رہے اور آج ان کی جماعت پنجاب میں حمزہ شہباز کی سربراہی میں بحیثیت اپوزیشن سیاست کر رہی ہے۔
پنجاب سیاست دانوں کی تاریخ کا فیصلہ اس لیے اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے کیونکہ پنجاب کی کل آبادی باقی صوبوں سے زیادہ ہے۔ اسی لیے ہر حکومت پرست سیاستدان کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ پنجاب میں اپنے سیاسی ایمپائر کو مضبوط کریں۔
آج کل پی پی پی بھی پنجاب میں کافی متحرک نظر آ رہی ہے۔ کیونکہ پی پی پی آئندہ انتخابات میں کامیابی کے درپے ہے۔
لیکن کچھ دن سے پی پی پی کو بلوچستان اور بلوچستان کے قادر بلوچ اور ثناء اللہ زہری کو پی پی پی کی سیاسی قربانیاں نظر آ رہی ہیں، اسی لیے قادر بلوچ اور ثناءاللہ زہری بھٹو کے جیالے بن گئے ہیں۔
یہ کہنا بھی تضاد نہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کو نواب زہری اور قادر بلوچ کی سیاسی پختگی پر کوئی شبہ نہیں۔ حالانکہ اسی نواب زہری کی حکومت کو بلوچستان اسمبلی سے عدم اعتماد کے ذریعے ختم کرنے والے بلاول صاحب ہی تھے۔
بلوچستان کے سیاسی لوگوں کا کمال دیکھیئے،کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسے میں نہ بلانے پر رہنما ن لیگ جنرل عبدالقادر اور ثنا اللہ زہری وہی پی ڈی ایم سے الگ ہوئے تھے جس میں پی پی پی بھی شامل تھی اور آج ثنا اللہ زہری کی پی پی پی بھی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں رہی۔
میں اس تھیوری کی نفی کرتا ہوں کہ پنجاب سیاسی جماعتوں کے مقدر اور تاریخ کا فیصلہ کرتی ہے۔
تاریخ کی عینک سے دیکھیئے،جب مرکز میں پی پی پی بر سرِ اقتدار تھی تو پی پی پی کے نواب اسلم رئیسانی وزیرِ اعلی بلوچستان تھے۔ نواز شریف وزیرِ اعظم تھے تب ن لیگ کے ثنا اللہ زہری بلوچستان میں صاحبِ اقتدار تھے اور اب چونکہ عمران خان وزیرِ اعظم ہیں تو بلوچستان میں پی ٹی آئی اور ان کے اتحادی حکومت چلا رہے ہیں۔
اسی طرح اگر اگلے الیکشن میں زرداری کی سیاسی تاش طاقت حاصل کر لے گی تو نواب زہری وزیر اعلی اور قادر بلوچ گورنر منتخب ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ قادر بلوچ پہلے ہی سابقہ گورنر اور نواب زہری وزیرِ اعلی بلوچستان رہ چکے ہیں۔
اب ملکی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہو چکا ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنے سیاسی کھیل،درباری سرداروں کے ذریعے بھر پور کھیلیں وگر نہ باپ ناراض ہو سکتا ہے۔
میں باپ کی توہین یا ان کی سیاسی حکمت عملی کی نقل نہیں کر رہا مگر اسی سلیبس سے تین بار مجھے اس امتحان سے کامیابی ملی ہے اور امید ہے آئندہ بھی ملے گے،کیونکہ باپ کے ٹیچر بلا شک تقرری کا شکار ہو سکتے ہیں مگر حکمتِ عملی ستّر کی دہائی سے تبدیل نہیں ہو رہی۔
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔