لاہور میں دل کے ہسپتال پر وکلا کا دھاوا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ یہ آخری واقعہ بھی نہیں ہو گا۔ تو پھر خرابی کہاں ہے؟ سوال تو یہ ہے کہ خرابی کہاں نہیں؟
بس ایک آئین ہے، جس سے امید باندھی جا سکتی ہے۔ مگر آئین تو محض ایک اخلاقی دستاویز ہے۔ اس پر عمل تو ہوتا نہیں۔ طاقتور گروہ اس پر عمل نہیں ہونے دیتے۔ ریاستی اشرافیہ، اور اس کے مختلف طبقات، جیسے کہ سیاسی اشرافیہ، فوجی اشرافیہ، کاروباری اشرافیہ، وغیرہ، اس پر عمل نہیں ہونے دیتے۔ اشرافیہ کے طبقات نے ریاست اور اس کے وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہ آئین اور قانون کو اپنی ضرورت اور فائدے کے مطابق ڈھالتے اور توڑ مروڑ لیتے ہیں۔
یعنی جیسا کہ عیاں ہے کہ ریاست لوگوں کے لیے ہوتی ہے، لوگ ریاست کے لیے نہیں۔ مگر پاکستان میں اس کے بالکل الٹ ہو گیا۔ ریاست لوگوں کے لیے نہیں رہی، لوگ اس کے لیے ہو گئے۔ اب جیسا کہ ریاست پر اشرافیہ کے مختلف طبقات نے قبضہ کیا ہوا ہے، سو ریاست ان کے لیے ہو گئی، اور لوگ اشرافیہ کے طبقات کے لیے ہو گئے۔
یوں لوگوں کی زندگی اہم نہیں رہی، اشرافیہ کی زندگی اہم ہو گئی۔ لوگوں کی خوشیاں اہم نہیں رہیں، اشرافیہ کی خوشیاں اہم ہو گئیں۔ لوگوں کے ووٹ اہم نہیں رہے، اشرافیہ کی پسند ناپسند اہم ہو گئی۔ لوگوں کے لیے انصاف اہم نہیں رہا، اشرافیہ کے لیے انصاف اہم ہو گیا۔ لوگوں کا پیسہ اہم نہیں رہا، اس پیسے پر اشرافیہ کا حق اہم ہو گیا۔ مراد یہ کہ ریاستی اشرافیہ لوگوں کے پیسے پر پل رہی ہے۔ یہ پیسہ دوہرے تہرے ٹیکسوں کی صورت میں لیا جا رہا ہے۔ یہ پیسہ ودہولڈنگ ٹیکسوں کی صورت میں لیا جا رہا ہے۔ یہ پیسہ بجلی کی قیمت بڑھا کر لیا جا رہا ہے۔ یہ پیسہ گیس کی قیمت بڑھا کر لیا جا رہا ہے۔ یہ پیسہ پیٹرول کی قیمت بڑھا کر لیا جا رہا ہے۔
یہ پیسہ سرکاری دفتروں، تھانوں، کچہریوں، عدالتوں میں رشوت کی صورت میں لیا جا رہا ہے۔ یہ پیسہ بھتے کی صورت میں لیا جا رہا ہے۔ یہ پیسہ روپے کی قیمت گرا کر لیا جا رہا ہے۔ یہ پیسہ عطیات کی صورت میں لیا جا رہا ہے۔ یہ پیسہ چوریوں اور ڈاکوں کی صورت میں لیا جا رہا ہے (مراد یہ کہ ریاست لوگوں کے مال و جائیداد کو تحفظ نہیں دے رہی)۔ یہ پیسہ ملکی اور غیرملکی قرضوں کی صورت میں لیا جا رہا ہے (مراد یہ کہ یہ تمام قرضے بالآخر لوگوں کے ٹیکس کے پیسے سے ادا کیے جا رہے ہیں)۔
مگر سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ جا کہاں رہا ہے۔ ریاست اور حکومت لوگوں کو ان کے پیسے کے عوض دے کیا رہی ہیں۔ عام لوگوں کو نہ تو اپنی جان کا تحفظ حاصل ہے، نہ اپنے مال کا۔ نہ ہی انھیں انصاف میسر ہے۔ نہ ہی انھیں اپنے بنیادی حقوق اور آزادیوں کا تحفظ میسر ہے۔ نہ ہی اچھے معیار کی سماجی خدمات میسر ہیں۔ نہ ہی انھیں بہتر انفراسٹرکچر دستیاب ہے۔ جبکہ ریاستی اشرافیہ، لوگوں کے پیسے کے بل پر خود آرام و آسائش کی زندگی گزار رہی ہے۔ ریاستی اداروں کے عہدے داروں کو، جن میں خاص طور پر اعلیٰ عدلیہ کے جج اور فوجی جرنیل شامل ہیں، پرانے دور کے بادشاہوں سے زیادہ مراعات حاصل ہیں۔ مگر عام لوگ جن کے پیسے پر یہ ریاست پل رہی ہے، انھیں کوئی عزت و وقار حاصل نہیں۔
ان معاملات کی طرف ریاست، حکومت اور سیاست کسی کی توجہ نہیں۔ توجہ ہے تو اسلام آباد میں مسلسل چلنے والی اقتدار کی جنگ اور کشاکش پر ہے۔ اقتدار کی سازشوں پر توجہ ہے۔ لوگوں کی جیبوں سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نکلوانے والی پالیسیاں بنانے پر توجہ ہے۔ یعنی ایک طرف اقتدار کی کشمکش میں الجھی ہوئی اسلام آبادی ریاست، حکومت، سیاست اور معیشت ہے، تو دوسری طرف لوگوں کی بے بسی و بے کسی۔ یہ دونوں کنارے کہیں بھی نہیں ملتے۔ 70 برس سے زیادہ ہو گئے، کبھی نہیں ملے۔ اگر ایک دو مرتبہ سیاست کو گلیوں سڑکوں پر لایا بھی گیا تو اقتدار کی جنگ جیتنے کے لیے۔ اس کے بعد لوگ گلیوں اور سڑکوں پر ہی پڑے رہ گئے۔
یہی وہ صورتِ حال ہے جو اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ پاکستان کی ریاست سر کے بل کھڑی ہے۔ یعنی یہ لوگوں کے لیے حل نہیں، بلکہ مسئلہ ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ۔ نہ صرف خود ریاست حل کے بجائے ایک مسئلہ بن چکی ہے، بلکہ اس نے متعدد مافیا گروہوں کو بھی جنم دیا اور پالا پوسا۔ جو اس کے ساتھ مل کر لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ انھیں لوٹ رہے ہیں۔ ان کی جائیداد پر قابض ہیں۔ ان کے حقوق اور آزادیوں پر قابض ہیں۔
یہ مافیا گروہ آئین اور قانون، کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتے۔ پہلے سیاست دان ہی بدمعاش تصور کیے جاتے تھے، اب وکیل اور ڈاکٹر بھی ان میں شامل ہو گئے ہیں۔ میڈیا پہلے بھی بدمعاشی کرتا تھا، اب یہ بھی مافیا کا روپ اختیار کر چکا ہے۔ فوجیوں کے مختلف گروہ بھی پولیس اور ٹریفک پولیس کو جوتے کی نوک پر لکھتے ہیں۔ بھتہ خور گروہ علیحدہ ہیں، یہ بھی ریاست اور حکومت کی ملی بھگت اور شہ کے ساتھ بھتہ خوری کرتے ہیں۔
ایسے میں نقصان اور خسارے میں صرف عام لوگ ہیں، جن کا کوئی والی و وارث نہیں۔ جنھیں نہ تو جان کا تحفظ حاصل ہے، نہ مال کا۔ جن کے حقوق اور آزادیاں چھوٹے موٹے بدمعاش گروہوں کے ہاتھوں پامال ہو رہی ہیں۔ جنھیں ریاست و حکومت تو ٹیکس کے نام پر لوٹتی ہی ہیں، بلکہ دوسرے مافیا بھی ان کے مال و جائیداد پر اپنے ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک خانہ جنگی جیسی صورتِ حال ہے۔ ایسی صورتِ حال جس میں صرف طاقت ور گروہ زندہ رہتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ یعنی یہ صورتِ حال صرف طاقت ور گروہوں کے لیے سازگار ہوتی ہے۔
تو پھر یہ طاقت ور گروہ اس صورتِ حال میں تبدیلی کیوں لانا چاہیں گے۔ جیسا کہ عیاں ہے کہ اشرافیہ کے بیشتر طبقات یا تو خود مافیا ہیں، یا مافیا کا حصہ ہیں، تو یہ کوئی ایسی تبدیلی کیوں لانا چاہیں گے، جو ان کی حاکمیت اور معیشت کو ختم کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ تمام سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی کوئی امید نہیں باندھی جا سکتی۔ نہ ہی باندھنی چاہیے۔ یہ سب جماعتیں لوگوں کے پیسے پر پلنے والے طفیلی گروہ ہیں۔
ہاں، بائیں بازو سے کچھ امید اس شرط پر باندھی جا سکتی ہے کہ پہلے تو یہ اپنے نظریاتی و فکری انتشار سے چھٹکارا حاصل کرے۔ دوسرے یہ اپنی انقلابی رومانویت اور لذت پسندی سے دامن چھڑائے۔ اسے اپنے گذشتہ تمام رویوں اور تعصبات کو بھی طاق میں رکھنا ہو گا۔ اسے اپنا پرانا ساز و سامان پیچھے چھوڑ کر ایک نئے انداز میں لوگوں کے سامنے آنا ہو گا۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے بائیں بازو کو صرف ایک نکتے پر اکٹھا ہونا ہو گا کہ پاکستان کی ریاست کو، جو آئین موجود ہے، اس کے مطابق تراشنا اور ڈھالنا ہے، تو یہ لوگوں کا اعتماد حاصل کر سکے گا۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ بائیں بازو سے یہ امید باندھنا کارِ عبث ہے۔ یہ خود اپنے کنوئیں کا مینڈک بنا ہوا ہے۔ اس کا اس کنوئیں سے باہر نکلنا قریب قریب ناممکن ہے۔
ایسے میں بس یہ سوچا اور چاہا جا سکتا ہے کہ کوئی ایک نئی سیاسی جماعت وجود میں آئے، جس کا یک نکاتی منشور یہ ہو کہ پاکستان کی ریاست کو نئے سرے سے آئین کے مطابق تعمیرِ کرنا ہے۔