باڑ نہ لگاؤ بولو بھاڑ میں جاؤ

باڑ نہ لگاؤ بولو بھاڑ میں جاؤ
گوادر کی ترقی اور مختلف منصوبوں سے متعلق بلوچ قوم پرستوں کو ہمیشہ سے خدشات رہے ہیں اور ہمیشہ سے ان کا گلہ رہا ہے کہ وہ اس ترقی کا حصہ نہیں ہیں۔ اس وقت یہ خدشات اور زیادہ کھل کر سامنے آرہے ہیں جب سیکیوریٹی منصوبے کے تحت گوادر شہر کے اردگرد باڑ لگانے کا کام شروع ہوا ہے۔ حکومتی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ باڑ گوادر سیف سیٹی منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد مختلف منصوبوں اور زون کو تحفظ فراہم کرنا ہے لیکن بلوچستان کی اپوزیشن جماعتیں اس عمل سے بہت ناراض ہیں اور وہ اسے گوادر کو بلوچستان سے الگ رکھنے کی سازش بتا رہے ہیں۔

بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں اس وقت اپوزیشن میں ہیں اور پاکستان جمہوریت بچاؤ تحریک کا حصہ بھی ہیں۔ اس لیئے اس معاملے پر بہت زیادہ غصہ و ناراضگی ظاہر کرنا گزشتہ خدشات کے ساتھ ساتھ اس وقت بلوچستان کی صوبائی سرکار اور وفاقی سرکار کو پریشر میں رکھنا بھی ہوسکتا ہے کیونکہ یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی آئندہ کسی جلسے کے لیئے بلوچستان میں گوادر یا تربت شہر کا انتخاب کرنے کے لیئے یہاں اس سے ماحول گرم کیا جاسکتا ہے۔


اس وقت سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر گوادر کے لئے باڑ نہ  منظور کی مہم چلائی جارہی ہے جہاں صارفین اس عمل پر بے انتہا ناراضگی دیکھا رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح کا کوئی سازش کہہ رہے ہیں تو ایک صارف نے حکومت کو مخاطب ہوکر لکھا ہے کہ 'باڑ نہ لگاؤ صاف صاف بول دو کہ بھاڑ میں جاؤ'


خبروں کے مطابق شہر کی سیکیوریٹی منصوبے کے تحت شہر کے اردگرد بھاڑ لگاکر صرف دو مقامات پر داخلے کے لئے راستے ہونگے جہاں جدید تلاشی کے آلات نصب کیئے جائیں گے۔ وزیر اعلی بلوچستان کے ایک بیان میں اس بات کو رد کیا گیا ہے کہ بھاڑ لگانے سے گوادر کو بلوچستان کے باقی حصوں سے الگ رکھا جائے گا بلکہ ان کے بقول یہ گوادر سیف سٹی منصوبے کا حصہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف سابقہ وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر مالک سمیت اخترمینگل اسے گوادر کو بلوچستان سے الگ رکھنے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔


بلوچستان اسمبلی کے رکن ثناء بلوچ کہتے ہیں کہ 'دنیا ٹرمپ کو برا سمجھتا تھا کیونکہ وہ امریکہ اور میکسیکو کے سرحد پر دیوار کھڑا کرنا چاہتا تھا مگر پاکستان میں ہر ادارے میں ٹرمپ موجود ہے جو بلوچستان کی ساحل و وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے دیواریں کھڑی کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کو پنجروں میں قید رکھا جائے' بلوچستان سے سیاسی و عوامی حلقے اس وقت بھاڑ لگانے کے عمل کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔


لیکن یہاں یہ سوال اب بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا گوادر سے متعلق وفاق خود کوئی فیصلہ لے سکتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ وفاق کا ہمیشہ سے دعوی رہا ہے کہ گوادر کو سلطنت آف عمان سے خریدا گیا ہے جبکہ قوم پرست جماعتیں اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ دوسری طرف گوادر کے زمینوں کی خریدوفروخت سے متعلق مختلف ادوار میں آئین سازی کی بھی بات ہوتی رہی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گوادر سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعتوں کے اپنے لوگ زمینوں کے کاروبار میں سب سے زیادہ آگے ہیں۔


گوادر سے متعلق وفاقی سطح پر اگرچہ قوم پرست قیادت کوئی آئینی و قانونی بل پاس نہ کرسکی لیکن صوبائی سطح پر بھی ناکام رہے ہیں کیونکہ نیشنل پارٹی تو اس حکومت سے پہلے صوبائی حکومت میں رہ چکے ہے جبکہ گوادر سے منتخب صوبائی اسمبلی کے رکن پچھلے کئی ادوار سے اسمبلی میں ہیں اور وہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ہیں۔ اب آئین سازی کے ساتھ ساتھ قوم پرست قیادت کے لئے یہ معاملہ بھی آگے بڑھ کر بہت بڑا معمہ بن سکتی ہے کہ گوادر سے متعلق کیا ڈاکیومنٹس ہیں اور صوبہ و وفاق کے بیچ گوادر کی حیثیت کیا ہے

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔