ارب پتی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا امریکی سرمایہ کار اب انکوائریاں بھگت رہا ہے

ارب پتی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا امریکی سرمایہ کار اب انکوائریاں بھگت رہا ہے
65 ارب روپے کا مالک، صدر بائیڈن کا قریبی دوست، پاک امریکہ تعلقات کا اہم ستون اور پاکستان میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری لانے کے دعوے کرنے والا آج کل اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے حوالے سے کافی پریشان نظر آرہا ہے کیونکہ کافی عرصے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ ہر طرف سے اس کو نو لفٹ کا اشارہ دیکھنے کو ملا۔ اس نو لفٹ کے اشاروں کی وجوہات بے شمار ہیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے ذرا پس منظر پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں (اس ضمن میں ایک مضمون پہلے بھی نیا دور پہ شائع ہو چکا ہے)۔ تین سال قبل یہ موصوف کسی طرح ایک نجی پاکستانی ٹی وی چینل کے ایک سینیئر اینکر کو اپنی چال بازیوں میں لا کر (ایک دن نجی ٹی وی کے ساتھ) پروگرام میں آنے میں کامیاب ہو گئے۔ پروگرام میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ 65 ارب روپے کے مالک ہیں اور ان کا شمار صدر بائیڈن کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے جبکہ وہ پاک امریکہ تعلقات میں اہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں اور بہت جلد کروڑوں ڈالرز کی سرمایہ کاری پاکستان لے کر آئیں گے۔

یہ کہانیاں تو ایک طرف مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نجی ٹی وی کے اینکر کی گھر آمد سے پہلے موصوف نے مہنگی ترین گاڑیاں کرائے پر حاصل کر کے اپنے گھر کی پارکنگ میں لگوا دیں۔ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ بھی آئرن مین کی طرح مہنگی گاڑیوں کا شوق رکھتے ہیں۔ امریکہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر فرنیچر سمیت گاڑیاں اور آسائش کی ہر چیز بہت ہی کم پیسوں میں آسانی سے کرائے پر حاصل کی جا سکتی ہیں۔ خیر اس میں کوئی برائی بھی نہیں کہ اگر کوئی امیر آدمی اپنے آپ کو اور زیادہ امیر آدمی کے طور پر پیش کرنے کا خواہش مند ہو۔

ایک دن نجی ٹی وی کے ساتھ کی یہ قسط یوٹیوب پر ہر خاص و عام کے لیے دستیاب ہے۔ جھوٹی ورزش سے شروع ہونے والا دن الف لیلیٰ اور عمرو عیار کی کہانیوں پر جا کر ختم ہوا۔ لیکن اس انٹرویو کے بعد ان صاحب نے خوب فائدے اٹھانے کی کوشش کی۔ پاکستان میں اعلیٰ سطحی تعلقات بنائے، سول ایوارڈ حاصل کیے، لیکن بدلے میں سرمایہ کاری لانے کی بجائے پاکستان کو صرف لارے پر ہی ٹرخائے رکھا اور کرما تو پھر انتظار میں ہی رہتا ہے۔

تھوڑی سی ریسرچ کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ صاحب 65 ارب تو کُجا، 6 ارب کے بھی مالک نہیں ہیں۔ ان صاحب کا کاروبار لوگوں کی سرمایہ کاری پر چل رہا ہے۔ صدر بائیڈن کے قریبی دوست ہونے کا بھانڈا تو عمران خان کے دور حکومت ہی میں پھوٹ گیا تھا۔ پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کا چکمہ دینے والے یہ صاحب آج تک ایک پھوٹی کوڑی بھی پاکستان لے کر نہیں آئے لیکن انہوں نے ایل این جی کی ڈیل حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن حکومت پاکستان کے پالیسی سازوں کو معلوم ہوچکا تھا کہ یہ ڈبل شاہ والی گیم ہے۔ یہ داؤ نہیں چلا تو ڈی ایچ اے میں بڑی اراضی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں پاکستانی فوج کے چند اہم افسران کو بھی اپنے ساتھ ملایا لیکن یہ مشن بھی اب تک پورا نہیں ہو سکا۔

ان صاحب نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ایک عرصے تک عمران خان اور جنرل باجوہ کو بے وقوف بنائے رکھا اور ان دونوں کے جانے کے بعد اب یہ صاحب سیاسی یتیم کے طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں عمران خان اور جنرل باجوہ کی خوب برائیاں کرنے کے باوجود موجودہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے یہ صاحب ملاقات کرنے میں ناکام رہے۔ یہاں تک کہ اس مرتبہ تو عمران خان نے بھی نو لفٹ کا اشارہ دکھا دیا۔

موصوف نجی محفلوں میں کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستان اس وقت سرمایہ کاروں کے لیے قبرستان بن چکا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات انتہائی نازک مرحلے میں ہیں لیکن وہ شخص تو گزشتہ تین سال سے پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری لانے کے دعوے کرتا رہا ہے، ان دعووں کا کیا بنا؟

تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ اس وقت موصوف کے خلاف پاکستانی وزارت خارجہ سمیت امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے میں انکوائری چل رہی ہے۔ انکوائری کی وجہ ان صاحب کی امریکی کانگریس اراکین کو پاکستانی کمیونٹی کے معزز رہنماؤں کے خلاف بھڑکانے کی شکایات ہیں۔ چند ماہ قبل واشنگٹن میں امریکی سینیٹر کے اعزاز میں منعقد کیا گیا عشائیہ آج تک ان صاحب سے ہضم نہیں ہو پایا کیونکہ یہ وہاں مدعو نہیں تھے اور وہاں پر امریکی سینیٹر نے پاکستان کے حوالے سے جو گفتگو کی وہ نا صرف پاکستانی میڈیا بلکہ انٹرنیشنل میڈیا پر بھی شہ سرخیوں کی زینت بنی۔

ان صاحب نے کبھی میڈیا کا نمائندہ بن کر اور کبھی خود کانگریس اراکین سے رابطے کر کے انہیں پاکستانی کمیونٹی کے ہیروز کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی اور تاثر دیا کہ پاکستانی کمیونٹی کس طرح آپس میں ایک دوسرے کی دشمن ہے۔ یہ تمام شکایات امریکہ میں مقیم اعلیٰ سطح پر رابطے رکھنے والوں نے پاکستانی حکام تک پہنچائیں کہ کس طریقے سے یہ جھوٹا سرمایہ کار امریکی کانگریس اراکین میں پاکستان اور پاکستانیوں کے حوالے سے بد گمانیاں پھیلا کر پاکستانی کمیونٹی کے لیے بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔

کسی بھلے شخص نے چند روز قبل انہیں قبلہ درست کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا لیکن جواب میں ان ہی کو پڑ گئے اور پھر وہی پرانی دھمکیاں کہ تم مجھے جانتے نہیں وغیرہ وغیرہ۔ اب کوئی موصوف کو بتائے کہ بھائی جان اب تو آپ کو سب ہی جانتے ہیں بلکہ بہت اچھی طرح جان چکے ہیں۔