یوٹیوب پر ویوز کی جنگ نے صحافت کے معیار کو نقصان پہنچایا ہے

یوٹیوب پر ویوز کی جنگ نے صحافت کے معیار کو نقصان پہنچایا ہے
جمہوری حکومت کے رواں دورانیے میں نامور صحافیوں کو مختلف مسائل و پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا جن کے باعث انہوں نے یوٹیوب کا رخ کیا۔ یوٹیوب کی جانب ان صحافیوں و دیگر ولاگرز کے رجحان کی اولین وجہ اظہار رائے کی آزادی تھی۔ لیکن گزرتے وقت نے انہیں یہ احساس دلایا کہ یوٹیوب پر محض معیاری مواد فراہم کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ کیونکہ کچھ غیر معروف یوٹیوبرز جو غیر معیاری مواد کی مدد سے ڈالرز کمانے کی دوڑ میں لگے تھے، ان کے باعث صحافت کے معیار پر سوال بھی اٹھائے جانے لگے اور یوٹیوب چینلز کو بھی باقاعدہ رجسٹر کرنے کی بازگشت سنائی دینے لگی جبکہ بعض یوٹیوبرز کا مرتب کردہ مواد ویوز اور فالوورز حاصل کرنے کے بجائے الٹا ان کے لیے وبال جان بھی بن گیا۔

2002 میں پاکستان میں نجی چینلز نے نشریات کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے نجی نیوز چینلز کی بھرمار ہو گئی۔ اداروں کے پاس سٹاف کی کمی تھی جو گزرتے وقت کے ساتھ مختلف تعلیمی اداروں سے صحافت یا متعلقہ ڈگریاں حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کی مدد سے پوری ہوتی گئی۔ 2008 میں کاروباری تناظر میں میڈیا کے فن کو استعمال کرنے کا رجحان پیدا ہوا اور یوٹیوب ولاگرز کی پہلی ترجیح قرار پایا۔ 2018 میں میڈیا پر حکومتی پابندیوں نے صحافیوں کا رجحان یوٹیوب چینلز کی جانب راغب کر دیا۔

نیو نیوز کے ڈائریکٹر محمد عثمان کے مطابق 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے میڈیا کو دیے جانے والے اشتہارات میں 50 فیصد کمی کئے جانے کے باعث 3 ہزار سے زائد ملازمین کو میڈیا انڈسٹری کو خیر باد کہنا پڑا۔ جبکہ پی ایف یو جے کے جنرل سیکرٹری رانا عظیم بتاتے ہیں کہ ان ملازمین کے بعد مزید بہت سارے ملازمین کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ حکومتی اشتہارات میں کمی کے حوالے سے سابق وزیر اطلاعات چودھری فواد حسین کا مؤقف تھا کہ پاکستانی میڈیا ہاؤسز کو سرکاری اشتہارات پر انحصار کم کرنے کے لئے اپنے ریونیو ماڈلز بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اسے میڈیا سنسرشپ یا مخفی پابندیوں کی کوئی شکل نہ سمجھا جائے۔

یوٹیوبر و رپورٹر ایکسپریس نیوز لاہور میاں اسلم بتاتے ہیں کہ 2018 تک مفاد پرست لوگوں کے زیادہ ویوز اور فالوورز کی دوڑ میں غیر معیاری صحافتی مواد کے باعث یوٹیوب چینلز کے معیار پر سوالات اٹھنے شروع ہو چکے تھے جس میں خاطر خواہ اضافہ کورونا وائرس پھیلنے کے دوران ہوا جب عوام کی ایک بڑی تعداد گھروں میں مقیم تھی۔ اور بات 'دیکھتے رہیں ہمارا چینل' سے 'ہمارا چینل ضرور سبسکرائب کریں' تک آن پہنچی تھی۔ اسی باعث پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 (پیکا) کے نفاذ اور پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے قیام کو تقویت ملی۔ تاکہ میڈیا انڈسٹری کے ہر سیکٹر کو ایک ہی ایکٹ اور ایک ہی ادارے کی مدد سے کنٹرول کیا جا سکے۔

ٹرائبل پوسٹ کے بانی رضا دوتانی کا کہنا ہے کہ حکومت پابندیاں یا ادارتی پالیسی نہ بھی ہو تو بھی یوٹیوب علاقائی صحافیوں کی صحافت کو زندہ رکھنے کا ایک پائیدار حل ہے جو کہ ناصرف معاشی استحکام بخشنے کے ساتھ ساتھ انہیں کام میں مزید آزادی فراہم کرتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کے سبھی پلیٹ فارمز، گورنمنٹ اور این جی اوز کی اس حوالے سے کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ ان میں سب سے پہلے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو صحافتی مواد شیئر کرنے والے فرد کی بطور صحافی صلاحیتوں کو جانچنے کا ایک معیار بنانا چاہئیے اور بعد میں ایسے پیجز کے مرتب شدہ مواد کی بنیاد پر ان کی درجہ بندی کرنی چاہئیے۔

مظفرگڑھ کے نواحی علاقے سناواں سے روہی چینل کے نمائندے طاہر شفیق بتاتے ہیں کہ وہ اپنے یوٹیوب چینل کی مدد سے علاقائی مسائل سے متعلق سیاست دانوں کی عدم دلچسپی پر عوامی توجہ مبذول کرواتے ہیں جس کے باعث سیاسی رہنماؤں کے میڈیا سیل اور ورکرز انہیں سوشل میڈیا پر ہراساں کرتے ہیں۔

اس حوالے سے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کافی فعال دکھائی دیتی ہے۔ حق رسائی برائے معلومات کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کے مطابق 2021 میں فیس بک کے پیجز کے خلاف 19505 اور یوٹیوب کے چینلز کے خلاف 363 درخواستیں، جبکہ 2022 میں تاحال فیس کے پیجز کے خلاف 11361 اور یو ٹیوب چینلز کے خلاف 246 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ جبکہ 2021 میں 4174 فیس بک پیجز اور 100 یوٹیوب چینلز کے خلاف انکوائری کی گئی جبکہ 2022 میں 1993 فیس بک پیجز اور 53 یوٹیوب چینلز کے خلاف انکوائری کی گئی۔

یوٹیوب کے حوالے سے کی جانے والی پروفائلنگ سٹڈی سے یوٹیوب کی موجودہ دور میں افادیت واضح ہوتی ہے۔ تحقیق میں شامل افراد میں سے 78 فیصد کسی بھی قسم کی ویڈیو تلاش کرنے کے لیے یوٹیوب کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا فورمز کی صحافیوں کی نظر میں افادیت کے حوالے سے ہونے والی تحقیق میں یہ نتائج سامنے آئے کہ یوٹیوب روایتی میڈیا کی ویوور شپ میں کمی لانے کا سبب بنی ہے۔ بیشتر صحافی سوشل میڈیا کا استعمال اپنی صحافت کا اثرورسوخ برقرار رکھنے کے لئے کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا نئے صحافیوں کو مواقع فراہم کر رہا ہے، اس لئے سوشل میڈیا کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے سے باخبر صحافیوں کے لئے مستقبل میں کم مواقع ہوں گے اور سوشل میڈیا صارفین اداروں کی بجائے انفرادی طور پر کام کرنے والے صحافیوں کو مخفی ایجنڈوں کی ترویج سے آزاد اور عوامی فلاح کے لئے کام کرنے والا تصور کرتے ہیں۔

یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا فورمز کی افادیت سے واضح ہے کہ سوشل میڈیا مستقبل کا سب سے مؤثر فورم ہے جہاں پر صارفین اپنا من پسند مواد بھی دیکھ سکتے ہیں اور اس کے جواب میں اپنے تاثرات کا اظہار بھی کر سکتے ہیں جبکہ یوٹیوبرز کو حکومتی قوانین اور عوامی ردعمل جیسی دہری آزمائشوں کا سامنا ہوگا لیکن اس کے عوض انہیں آزادی سے کام کرنے اور معاشی آسودگی کی شکل میں محنت کا ثمر ملے گا۔

فیصل سلیم میڈیا سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور مختلف نیوز ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں سماجی مسائل اور دلچسپ حقائق شامل ہیں۔