کہتے ہیں کہ کتاب سے بڑھ کر کوئی اچھا دوست نہیں، یہ ہمیں شعور حیات دیتی ہے، یہ انسان کی کردار سازی اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھرپور نکھارتی ہے۔ کتابیں انسانی دماغ کے بند تالوں کو کھول کر شعور کی روشنی سے فیض یاب کراتی ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دیکھی یا سُنی ہوئی چیز کے مقابلے میں پڑھی گئی کوئی بھی تحریر یا معلومات ہمارے ذہن پر دیرپا اثرات مرتب کرتی ہے اور لمبے عرصے تک ہماری یادداشت کا حصہ بن جاتی ہے۔ کتاب سے انسان کے صدیوں پرانے رشتے میں انٹرنیٹ، ٹیکنالوجی کا جدید دور اور وقت کا بے رحم چرکھا بھی اس میں دراڑ نہیں ڈال سکا۔
معاشرے کا اہل ذوق طبقہ اب بھی کتابوں سے اپنا تعلق برقرار رکھے ہوئے ہے۔ کُتب بینی اک شوق ہے، ضرورت ہے اور محبت بھی بن جاتی ہے۔ اس صورت میں اپنی پسند کی سستی اور نایاب کتابوں کا حصول ایک کتب بین کے لیے بڑا دشوار مرحلہ ہوتا ہے۔ لیکن ریگل چوک پہ اتوار کو سجنے والے کتب بازار نے اس دشوار مرحلے کو شائقین کے لیے آسان بنا دیا ہے۔ کراچی کے مصروف ترین تجارتی مرکز صدر میں قائم ریگل چوک پر عام دنوں میں پاؤں دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی۔ رش سے کھچا کھچ اس علاقے میں جب اتوار کو کتب بازار سجتا ہے تو اس کا منظر ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ ریگل چوک سے منسلک الیکٹرانک بازار کی گلی جو کہ (اتوار کو بند رہتی ہے) اس میں یہ 50 سال پرانا کتب بازار سالوں سے سجتا آ رہا ہے۔ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اس بازار کا رخ کرتے ہیں جہاں ہر کوئی اپنی پسند کی کتابیں ڈھونڈنے میں مشغول رہتا ہے۔ ابتدا میں یہ بازار ڈاؤ میڈیکل کالج، مشن روڈ اور لائٹ ہاؤس پر لگا کرتا تھا۔
صدر کے ریگل چوک پہ کتابوں کا بازار صبح 8 بجے سے سجنا شروع ہوتا ہے۔ گلی میں دو طرفہ ٹیبلز اور فرش پہ کپڑا بچھا کر ہر طرف کتابیں بکھیر دی جاتیں ہیں اور یہ کتابیں غروب آفتاب تک خریداروں کی منتظر رہتی ہیں۔ کتابوں کے اس بازار میں پرانی کتابوں کی فروخت کے لیے کسی دکان یا سٹال کی ضرورت نہیں، بس دکان کے سامنے بنے فٹ پاتھوں پر پرانی چادر بچھا کر ان پر کتابیں سجا دیتے ہیں۔ اس بازار میں شعر و شاعری، ادب، فنون لطیفہ، سائنس، تاریخ، فکشن، ڈائجسٹ، اسلامی کتب، انگلش کلاسک کتب اور درسی کتب کا بڑا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں اردو کے ساتھ انگلش، عربی، فارسی، اور اکا دُکا سنسکرت زبان کی کتابیں بھی مل جاتی ہیں۔ اور بازار کی سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ یہاں سالوں پرانی اخباریں اور رسالے نہایت ہی مناسب قیمت پہ مل جاتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا خزانہ ہے جس میں سے ہر کوئی اپنی پسند کی چیز ڈھونڈتا ہے۔
پرانی کتابوں کے شوقین افراد کئی کئی گھنٹوں اپنی پسندیدہ کتابیں خریدنے میں مشغول ہوتے ہیں۔ بازار میں کتابیں تلاش کرنے والے ایک شہری نے بتایا کہ نئی کتابیں اب قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں اس لیےاس بازار کا رخ کرتا ہوں، یہاں پرانی کتابیں 100 روپے سے بھی کم قیمت میں مل جاتی ہیں۔
کتب فروش زیادہ تر گلی گلی گھومنے والے کباڑیوں سے کتابیں خریدتے ہیں۔ کوئی نامور ادیب یا شاعر انتقال کر جاتا ہے تو اس کے پیچھے چھوڑے ہوئے کتابوں کے ذخیرے لواحقین ردی فروش کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ اپنی پڑھی ہوئی کتابیں بھی یہاں آ کر بیچ دیتے ہیں۔ اس طرح بازار میں مختلف اقسام کی کتابیں پہنچ جاتی ہیں۔ یہاں ایسی کتابیں بھی اتفاقاً مل جاتی ہیں جن پہ مصنف کے اپنے دستخط ہوتے ہیں۔
کتابیں خریدنے والے ایک شہری نے بتایا کہ کتابیں تو کتب میلوں اور اردو بازار سے بھی مل جاتی ہیں، مگر اتوار بازار کی بات ہی کچھ اور ہے۔ یہاں پرانی کتابوں کی قیمت نصف سے بھی کم ہوتی ہے اور نایاب کتب بھی یہاں ڈھونڈنے سے مل جاتی ہیں جو نادر ہو چُکی ہیں جس وجہ سے یہ بازار ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور میں گذشتہ کئی سالوں سے اس بازار کے چکر لگا رہا ہوں۔
ایک کتاب فروخت کرنے والے نے بتایا کہ وہ پچھلے 25 سالوں سے یہاں کتابیں فروخت کر رہے ہیں، اس بازار نے کئی اُتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ شروعاتی زمانے میں کافی لوگ آیا کرتے تھے، کمپیوٹر اور موبائل فون آنے کی وجہ سے تعداد میں کمی ضرور ہوئی ہے لیکن بہرحال اب بھی لوگ آتے ہیں اور کچھ گاہک ایسے بھی ہیں جن سے اب تو شناسائی ہو چکی ہے۔ وہ دس پندرہ سالوں سے مسلسل آ رہے ہیں۔
ایک اور کتاب فروش کا کہنا تھا کہ یہ سستا بازار کتاب کلچر کو فروغ دینے کا سبب ہے۔ ویسے تو کتابیں انٹرنیٹ پر مل جاتی ہیں، مگر پڑھنے والا کتاب کا ہی مطالعہ کرتا ہے، جس کے بغیر اس کی تسلی نہیں ہو سکتی۔
بچوں کے ہمراہ ایک بزرگ شہری کتابیں خریدنے میں محو تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ چھوٹے بچوں میں کتابوں کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے اچھا ہے کہ انہیں ڈرائنگ اور تصاویر والی کتابیں دلائی جائیں، تاکہ یہ چھوٹی عمر سے ہی پڑھنے کی جانب راغب ہوں۔