راولپنڈی: صدر کے علاقے میں جی پی او کے بالکل سامنے ہر اتوار کتابوں کا بازار لگتا ہے جہاں اردو ادب، طلبہ کے کورس، اسلامی کتب اور بچوں کی کہانیوں سمیت کئی اصناف کی کتب نہایت سستے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔
گذشتہ اتوار ایک کتب فروش نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کتب فروشی کا کاروبار بھی بری صورتحال سے دو چار ہے۔ اور اس کی وجہ مہنگائی یا حکومتی پالیسیوں کے بجائے موبائل فون اور انٹرنیٹ ہیں۔
کتب فروش سید افتخار علی نے بتایا کہ جب سے آن لائن کتب دستیاب ہوئی ہیں، لوگوں نے کتاب پڑھنا بہت کم کر دی ہیں۔ اب لوگ اپنے موبائل فونز وغیرہ پر ہی پڑھ لیتے ہیں۔
افتخار علی نے نیا دور کو بتایا کہ اب کتاب خریدنے کے لئے زیادہ تر بڑی عمر کے لوگ ہی آتے ہیں، نئی نسل کا بازار میں آنا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ تاہم افتخار علی کا کہنا تھا کہ کتاب سے پڑھنے کا جو فائدہ ہے، وہ آن لائن پڑھنے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔
راولپنڈی کا پرانی کتابوں کا یہ بازار گذشتہ کئی سالوں سے اس جگہ پر لگایا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ گیلانی فاؤنڈیشن کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 75 فیصد یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے کورس کے علاوہ کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی جب کہ صرف 9 فیصد سمجھتے ہیں کہ وہ کتابیں پڑھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔