ناکام PTI امیدواروں کو الیکشن ٹربیونلز سے کتنا ریلیف مل سکتا ہے؟

ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ جیسے قابل وکلا نے بھی داد رسی کا متبادل فورم دستیاب ہونے کے باوجود آئینی دائرہ اختیار میں لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی، یہ اقدام ناصرف غیر قانونی تھا بلکہ بدنیتی پر بھی مبنی تھا۔ یہ کوشش انتخابی نتائج کو سکینڈلائز کرنے کے مترادف ہے۔

ناکام PTI امیدواروں کو الیکشن ٹربیونلز سے کتنا ریلیف مل سکتا ہے؟

انتخابی نتائج کے خلاف ہائی کورٹ سے درخواستیں مسترد ہونے پر پاکستان تحریک انصاف وقتی طور پر نا صرف بند گلی میں جاتی نظر آتی ہے بلکہ امیدواروں نے نتائج کے خلاف الیکشن کمیشن کے بجائے ہائی کورٹ سے رجوع کر کے اپنا اور عدالت کا وقت بھی ضائع کیا ہے۔ عام انتخابات کے نتائج سے متاثرہ امیدواروں کی داد رسی کے لئے الیکشن ٹربیونلز اور اس کے بعد اپیل کے فورم دستیاب ہیں مگر ان کے فیصلے کتنی دیر میں آ سکتے ہیں، اس پر قانونی ماہرین امید ظاہر کر رہے ہیں کہ بظاہر 120 روز میں انتخابی عذر داریوں پر فیصلے آنے کا امکان ہے۔

عرفان ایزد ایڈووکیٹ نے انتخابی نتائج کو براہ راست ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بڑے اچھے وکلا، خاص طور پر سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ جیسے قابل وکلا نے داد رسی کا متبادل فورم دستیاب ہونے کے باوجود آئینی دائرہ اختیار میں درخواست دائر کی، یہ نا صرف غیر قانونی تھا بلکہ بد نیتی پر بھی مبنی تھا۔ یہ کوشش انتخابی نتائج کو سکینڈلائز کرنے کے مترادف ہے جبکہ سب کو علم ہے کہ نتائج کو صرف الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ ہارنے والے امیدواروں کو چاہیے تھا کہ 3 روز کے اندر اندر الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کرتے، اب وہ 3 دن بھی گزر چکے ہیں لہٰذا شکست سے دوچار امیدواروں کو 45 روز کے اندر الیکشن ٹربیونلز سے رجوع کرنا ہو گا۔

ان کے مطابق الیکشن ٹربیونلز میں انتخابی عذر داری دائر کرنے کے بعد متاثرین اپنے الزامات کو ثابت کریں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی دیوانی نوعیت کے کیس میں جواب داخل کروائے جاتے ہیں، پھر اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے شواہد لائے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے قومی اسمبلی کے حلقہ کے لئے ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل الیکشن ٹربیونل اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ کے لیے سیشن جج پر مشتمل الیکشن ٹربیونل تشکیل دے گا اور الیکشن ٹربیونلز 120 روز میں ان انتخابی عذر داریوں پر فیصلے کرنے کے پابند ہوں گے۔

ماہر قانون شکیل احمد پاشا ایڈووکیٹ کے مطابق تحریک انصاف کے امیدواروں نے جس دروازے پر دستک دی اسی در نے انہیں متعلقہ فورم پر بھیج دیا ہے۔ اس در سے پہلے بھی ایک فورم موجود تھا، انہیں پہلے اس فورم سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ انتخابی نتائج سے متاثرہ امیدواروں کو چاہیے تھا وہ الیکشن کمیشن میں شکایت درج کرواتے، انتخابی نتائج کے خلاف داد رسی کے لیے ہائی کورٹ پہلا مناسب فورم نہیں ہے۔ ہائی کورٹ میں اپیل کی سطح پر درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ اب تحریک انصاف کے پاس الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔

ان کا کہنا ہے کہ ریٹرننگ آفیسر کا کردار اب ختم ہو چکا ہے، قانون کے مطابق اب الیکشن ٹربیونلز بنیں گے اور ان کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی جا سکتی ہیں۔ چاہے گنتی کا معاملہ ہو یا پھر دھاندلی کا الزام ہو، قانون کے مطابق اس پر پہلا فیصلہ الیکشن ٹربیونل ہی کر سکتا ہے۔ الیکشن ٹربیونل یہ دیکھے گا کہ انتخابی نتائج کی گنتی میں اگر کوئی کمی بیشی ہوئی ہے تو اسے درست کرے گا اور پھر رزلٹ کے مطابق اگر جیتے ہوئے امیدوار کو شکست ہوئی تو پھر الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کو فوقیت حاصل ہو گی۔ الیکشن ٹربیونل نے یہ دیکھنا ہے کہ انتخاب کے دوران غیر قانونی عمل کہاں پر ہوا، اسی کے مطابق فیصلہ ہو گا۔ الیکشن ٹربیونل یہ حکم نہیں دے سکتا کہ نئے انتخابات کروائے جائیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

درخواستیں قابل سماعت نہ ہونے کے باوجود ہائی کورٹ سے رجوع کر کے عدالتی وقت ضائع کرنے پر درخواست گزاروں پر جرمانے عائد کرنے کے سوال پر شکیل احمد پاشا نے کہا کہ یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے اور جرمانہ کرنا بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اگرچہ یہ روش عدالتی وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے مگر جرمانہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سیاسی امیدوار اپنے الیکشن پر پہلے ہی بہت ساری رقم خرچ چکا ہوتا ہے تو ہائی کورٹ جہاں سے اس کی داد رسی ہونی ہے اگر وہیں سے اسے جرمانے ہونے ہیں تو پھر یہ مناسب نہیں ہے۔ جرمانے کے ساتھ درخواست مسترد نہیں ہونی چاہیے۔

مسز گلزار بٹ ایڈووکیٹ کے مطابق انتخابی نتائج کے خلاف الیکشن قانون میں دو طرح کی داد رسی دستیاب ہے۔ پہلا راستہ یہ کہ انتخاب کے اگلے روز سے تین دن کے اندر اندر متاثرہ فریق الیکشن کمیشن کے پاس درخواست دائر کر سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 142 کے تحت کامیاب امیدوار کے گزٹ نوٹیفکیشن کے بعد 45 روز کے اندر متاثرہ امیدوار الیکشن ٹربیونل میں درخواست دائر کر سکتا ہے۔ ٹربیونل کے فیصلے کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ ماہر قانون گلزار بٹ ایڈووکیٹ کے مطابق داد رسی کے فورم موجود ہونے کی صورت میں رٹ درخواست دائر نہیں کی جا سکتی اور نا ہی ایسی درخواست قابل سماعت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کی درخواستیں ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دی ہیں لیکن لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ایک تحفظ ضرور دیا ہے کہ وہ پہلے 3 روز والی داد رسی مقررہ وقت میں حاصل نہیں کر پائے تھے اسی وجہ سے عدالت نے انہیں یہ تحفظ دے دیا ہے۔

گلزار بٹ ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ الیکشن ٹربیونلز میں شواہد ریکارڈ کیے جائیں گے اور جتنے بھی ووٹ ہوں گے ان کی دوبارہ گنتی ہو سکتی ہے۔ درست اور غلط ووٹوں پر بھی دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے، پھر نتیجہ کوئی بھی آ سکتا ہے۔ یہ تمام ممکنات شواہد پیش کرنے پر منحصر ہیں کہ کس قسم کے شواہد پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر کسی حلقے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قانون کی خلاف ورزی پائی گئی تو الیکشن ٹربیونل کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس حلقے کا دوبارہ الیکشن کا بھی حکم دے سکتا ہے۔ الیکشن ٹربیونلز یہ تمام فیصلے شواہد کی بنیاد پر ہی کرتے ہیں۔

سہیل بھٹی ایڈووکیٹ کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 اور آئین کو مدنظر رکھا جائے تو انتخابی نتائج کے معاملے پر پی ٹی آئی یا کسی بھی متاثرہ فریق کو 3 روز کے اندر اندر الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع نہیں کیا تو داد رسی کا اگلا فورم الیکشن ٹربیونل ہی قانونی طور پر موجود ہے مگر براہ راست ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کرنا قانون کا تقاضا ہی نہیں ہے۔ سہیل بھٹی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جب داد رسی کا متبادل فورم موجود ہو تو آئینی درخواست قابل سماعت نہیں ہوتی۔ ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ آئین میں کہا گیا ہے کہ اگر داد رسی کا متبادل فورم موجود ہو تو قانون کی پیروی کرتے ہوئے اسی فورم سے رجوع کرنا لازم ہے۔

ان کے مطابق انتخابی نتائج کے خلاف اب الیکشن ٹربیونلز میں ہی عذر داری دائر کی جا سکتی ہے اور ٹربیونلز وہاں شواہد کا جائزہ لے کر اپنا فیصلہ سنائے گا۔ الیکشن ٹربیونلز میں فیصلوں میں تاخیر کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اگر فریقین اپنے شواہد بروقت پیش کرتے ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ الیکشن ٹربیونلز بلاوجہ فیصلوں میں تاخیر کریں کیونکہ ٹربیونلز 120 روز کے اندر فیصلے کرنے کے پابند ہیں۔ کیس کی سماعت کے دوران تاخیری حربے استعمال کرنا ہمارے ہاں ایک لیگل کلچر بن چکا ہے۔

منیر باجوہ صحافی ہیں اور مختلف موضوعات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔ وہ نیا دور میڈیا کی رپورٹنگ ٹیم کا حصہ ہیں۔