ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ ہندوستان کی تقسیم سے لیکر آج تک حل طلب ہے۔ فاشسٹ مودی کے دور میں ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت ہی تبدیل کر دی گئی ہے۔ جس درد کو کشمیری قوم نے تو محسوس کیا مگر کشمیر پر سیاست کرنے والے صرف سیاست ہی کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔
یہ سیاسی سفاکیت بھارتی کشمیر میں جاری ہے اور پاکستانی کشمیر میں روبہ عمل ہے۔ بھارت سے آزاد ہونے والے کشمیر میں تو بے حسی اور سفاکی کچھ زیادہ ہی دیکھائی دیتی ہے۔ آزاد کشمیر میں وہ تڑپ اور احساس بہت نظر آیا ہے جو کہ آنا چاہیے تھا۔ بھارتی سرکار نے جو کیا سو کیا مگر پاکستان جو کشمیر کو شہ رگ کہتا ہے۔ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کر کے بھارت کشمیر کو ہضم کرجاتا ہے مگر وہاںکسی کے کان پر جو تک نہیں رینگی ہے اور خاموشی سے کشمیریوں قتل دیکھا گیا ہے اور دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستانی سرکار اور عوام کی جانب سے یکساں بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ سب قیادت کے فقدان سے ہوا ہے یا پھر پاکستانی کشمیر سے اکتا چکے تھے اور چپکے سے جان چھڑالی ہے کہ کشمیر جائے جہنم میں اور کشمیری مرتے ہو تو مرتے رہیں۔
ایسا ہو نہیں سکتا ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ پاکستانی قوم جو نصف صدی سے زائد مدت سے کشمیریوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ 2019 میں اچانک بدل جاتے۔ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ مسئلہ قیادت کا ہے۔ پاکستان میں حقیقی عوامی قیادت کا شدید فقدان اور بحران ہے۔ یہ چوٹ بھی عدم قیادت سے لگی ہے۔ قیادت کا بحران اور فقدان صرف پاکستان ہی کا مسئلہ ہوتا تو اور بات تھی۔
نتائج اتنے بھی بھیانک برآمد نہ ہوتے۔ کشمیری قوم بھی قیادت سے محروم ہے۔ بیماری دونوں طرف ہے بلکہ بانجھ پن ہے۔ ویرانی ہے اور ویرانی میں خیر کہاں ہوتی ہے۔
یہ ایک وقت ہے جب کشمیر پر آواز اٹھانا بھی تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے زمرے آتا ہے۔ وہ بھی ایک وقت تھا کہ کسی کشمیری کے زخم آنے پر بھی لائن آف کنٹرول پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنتی تھی اور پاکستان میں پہیہ جام ہڑتال کی جاتی تھی۔ شہر کے شہر بند ہو جاتے تھے اور پاکستان کے عوام کشمیر کے لئے جانوں کے نذرانے بھی دیتے تھے۔ وقت وہ بھی نہیں رہا ہے اور وقت یہ بھی نہیں رہے گا۔
بھارت کی بدمعاش مودی سرکار نے ظلم کے ہر حربے آزما لیے ہیں مگر کشمیری قوم اپنے حق خود اداریت کے لئے کل بھی کھڑی تھی اور آج بھی سینہ سپر ہے۔ شہادتوں سے کل بھی گھبرائے تھے اور نہ آج خوف زدہ ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر کے آزادی تک یہ جنگ جاری ہے اور جاری رہے گی۔
آزادی کا یہ علم کل جن کے ہاتھوں میں تھا انہوں نے اپنا فرض نبھایا اور آج آزادی کا پرچم جو تھامے ہوئے ہیں آج ان کا کردار ہے۔ آزادی کا یہ پرچم آگے جو تھامیں گے ان کا فیصلہ ہو گا کہ وہ سیاست بچاتے ہیں کہ ریاست کے لئے لڑتے ہیں۔
کشمیر فریڈم فورم برطانیہ، پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر کے کشمیریوں کی نئی شمع آزادی ہے۔ ناتوانا ہی سہی مگر جدوجہد آزادی ہے۔ راستہ ریاست ہے۔ سیاست نہیں ہے۔ سیاست نہیں، ریاست بچاؤ اور خونی لکیر روند کے نعرے پر شروع کردہ سفر مقبول بٹ شہید کے نقش قدم پر چلتے نشان منزل پہنچے گا۔
برطانیہ سے کشمیری رہنما آپا شاہین اختر اور سارا اختر جیسی بہادر خواتین نے خاموش بیٹھنے کی بجائے کشمیر فریڈم فورم سے آزادی کے نئے چراغ جلائے ہیں کہ اٹھو! ابھی وقت قیام آیا ہے۔ کشمیریوں کے اندر آزادی کی چنگاری سلگ رہی ہے۔ بجھی نہیں ہے۔ بیٹے نہیں تو بیٹوں کو پیدا کرنے والی مائیں کشمیر کی آزادی کا علم اٹھاتی ہیں۔