بلوچستان میں بادشاہ ننگا ہو گیا

ماہ رنگ، انوار کاکڑ جانتے ہوں گے، ایک عام بچی تھی۔ انسانی حقوق کی چیمپئن بننا اس کے محدود آسمان کے ستاروں میں شاید شامل رہا ہو۔ وہ جب ابھی کمسن تھی، اس کے یقیناً کچھ خواب رہے ہوں گے، نپے تلے عام معصومانہ خواب لیکن بدقسمتی کے کسی طے شدہ لمحے میں ان خوابوں کے فطری بہاؤ کے آگے خون کی ایک لکیر بند باندھ دیتی ہے۔

بلوچستان میں بادشاہ ننگا ہو گیا

انوارالحق کاکڑ کو اس دن لاہور کے تاجروں سے خطاب کرنا تھا۔ وہ جب گھر سے نکلا، جاذب نظر، بے داغ، نفیس نیلا کوٹ پہنے ہوئے تھا جس پر خوش رنگ درخشاں زرد ٹائی سلیقے سے بندھی ہوئی تھی۔ اس کے سٹاف نے تاجروں سے ملاقات کی مناسبت سے اس کے تقریباتی لباس کا احتیاط سے انتخاب کیا تھا۔ وہ خود لباس شناس نہیں ہے۔ اگر اسے اپنے دن کا سوٹ چننا ہوتا تو وہ ایسا لباس پہنتا جس میں وہ جوان اور پھرتیلا نظر آنے کی خواہش کرتا۔ ماضی قریب کی کئی تصویروں میں وہ چُست دھاری دار پولو شرٹ پہنے نظر آتا ہے، جن میں وہ سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا بلکہ دیکھنے والے کو فارغ البال لڑکا نظر آتا ہے جیسے اس نے شام کی واک پر جانے کیلئے مجبوری میں کسی اور کی شرٹ پہن رکھی ہو۔ کار کا دروازہ اس دن وزیر اعظم ہاؤس کے جس ملازم نے بھی کھولا تھا، اس نے اس کی گھورتی چھوٹی آنکھوں میں ایک حریص چمک دیکھی ہو گی جو اس کی بینکاروں جیسی چالاک عینک کے پیچھے سے نظر آ رہی تھی۔

'اس کی آنکھوں میں کامیابی کے مسرور نشے سے لطف اندوز ہونے کی چمک تھی'۔ دروازہ کھولنے والا اگر کوئی شاعر ہوتا تو خود کو ایسا کوئی تبصرہ کرنے سے روک نہیں پاتا۔ افسوس، وہ اس دن معیشت پر سیر حاصل لیکچر نہیں دے پایا۔ اس کی وجہ اکانومی کی پیچیدہ بھول بھلیاں نہیں تھیں بلکہ تقریب میں موجود ایک رپورٹر اس کی گفتگو میں خلل کی وجہ بنا جس نے بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے نوجوانوں پر سوال کر کے اسلام آباد کے دھرنے میں بیٹھے ان کے لواحقین کی جانب اس کی توجہ دلانا چاہی تھی۔ جو لوگ انوار کاکڑ کے سیاسی پشت پناہوں اور جس قدر آسانی سے وہ ہیرو بنا، اس پس منظر سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں صحافی نے جو پوچھا تھا یہ ان کیلئے ایک اشتعال انگیز سوال تھا جو ان کو ناگوار گزرتا ہے، وہ مشتعل ہوتے ہیں۔ یہ بات بلوچستان سے نا آگاہ وہ رپورٹر جانتا نہیں تھا۔ جب انوار کاکڑ اس کی جانب جواب دینے کیلئے مڑا۔ تقریب میں موجود صحافیوں سمیت تاجران نے دیکھا، اس کے چہرے پر غضبناک غصے کے طوفانی تاثرات کی ہوائیں چلنے لگی ہیں۔ غصہ اس پر حاوی ہو گیا ہے۔ وہ اپنے اندر موجیں مارتی نفرت کو قابو نہیں کر پا رہا۔ 'تم اگر بلوچستان چلے جاؤ، وہ تمہیں بھی قتل کر دیں گے یو ول بی آ ڈیڈ مین'۔ اس نے بے قابو غصے میں رپورٹر کو ڈرانے کے انداز میں چھوٹی آنکھوں سے مجمع کو گھورتے ہوئے کہا۔

ایک اور صحافی جو تقریب میں موجود تھا، سوال کرنا چاہتا تھا لیکن وہ ان کو جھٹک دیتا ہے۔

شہریوں کو غائب کرنا تسلیم شدہ جرم ہے۔ 'ان سے کوئی دلیل نہیں بن پا رہی'، کوئی گھاگ رپورٹر دیکھ رہا ہوتا، بلاساختہ کسی ہم پیشہ دوست سے کھسر پھسر کرتا۔ غیر قانونی اقدام کو کیسے قانون کہہ کر اس کا جواز پیش کیا جائے، وہ صحافی ضرور سوچتا۔

نیلا کوٹ پہنے، مہذب سیاست دان کا حلیہ رکھنے والا شخص اس دن اپنا نقاب، جس سے ان کے سیاست دان ہونے کا تاثر ملتا تھا، اتار دیتا ہے۔ وہ عسکری رہنما بن چکا تھا، بے صبرا، جنگ باز، آمنے سامنے کا چیلنج دینے والا۔ اس نے لواحقین کا رشتہ بھی مسلح تنظیموں سے جوڑ لیا۔ وہ لاپتہ انسانوں کی گمشدگی پر کوئی قانونی نکتہ تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ وہ شفیق دکھنا چاہتا ہے، جس کا اسے چسکا لگا ہے لیکن اس دن وہ اپنی اداکاری بھول چکا تھا۔ وہ باتیں کرنا چاہتا تھا، سوالات کو جھڑک کر اپنی بات کہنے پر اصرار کر رہا تھا۔ 'جو بلوچوں کا ہمدرد بنتا ہے، وہ جا کر مسلح تنظیموں کے کیمپ میں شامل ہو جائے'، وہ کہتا ہے۔ وہ بی ایل اے، بی ایل ایف، بی آر اے پر بات کرنا چاہتا ہے، گمشدگی پر نہیں جو اس کی چڑ بن چکی ہے۔ وہ لاپتہ ہونے والے شہریوں کی غیر قانونی گمشدگی پر ریاست کو اس کے جرم پر قانونی جواز فراہم نہیں کر پاتا۔ وہ ناراض ہے، لوگ اس کو غیر جانبدار، دانشمند اور اپنی سیاسی قابلیت کی بنیاد پر وزیر اعظم بننے کے قابل نہیں سمجھتے۔

'فوجی بے اصول اور نکمے ہوتے ہیں، کٹھن سازشوں میں ملوث اور شہریوں کو ختم کرنے میں ماہر تا کہ انتشار کے دنوں میں پھل پھول سکیں'۔ کولمبیا کے نوبل انعام یافتہ ناول نگار گابریئل گارسیا مارکیز نے اپنے ناول 'تنہائی کے سو سال' میں لکھا۔ انوار کاکڑ جب جارج آرویل کی یاد آوری سے نکلیں، دیکھنا چاہیں، اردو ترجمہ میں یہ اقتباس صفحہ 138 پر پڑھنے کیلئے دستیاب ہے۔ ان کو محمد حنیف کا ناول 'اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز' پڑھنے کا مشورہ دینا گارسیا مارکیز کی بہ نسبت زیادہ مناسب ہوتا۔ پاکستان کے اس باوقار صحافی نے ضیاء الحق کی نایاب ہڈیوں کی نماز جنازہ میں عسکری قبیلہ سے دردمندانہ مزاج پرسی کی ہے جو پاکستانی جمہوریت بوجوہ کرنے میں ناکام رہی ہے لیکن ستارہ امتیاز واپس لوٹانے کے باعث وہ اس صحافی سے دلبرداشتہ ہے، اس کا نام لینے پر اپنی زبان بندی کر چکا ہے۔ وہ ڈرتا ہو گا کہ اس کی شرانگیزی پنجاب کے تاجروں کو اپنے شر کے اثر میں نہ لے لے۔ ان کا ذکر نگراں وزیر اعظم، کوئی ایک چیز واپس کر رہا ہے، کوئی اور شے واپس کر رہا ہے، کے نام سے کرتا ہے۔ پھر ان کی زبان کو تین سے چار سیکنڈ کیلئے چُپ کا تالہ لگتا ہے۔ جب دوبارہ بولتے ہیں، سابق ستارہ امتیاز کو مسلح تنظیموں کے کیمپ جوائن کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تا کہ تاجروں کو ان سے ڈرائیں۔

ماہ رنگ، انوار کاکڑ جانتے ہوں گے، ایک عام بچی تھی۔ انسانی حقوق کی چیمپئن بننا اس کے محدود آسمان کے ستاروں میں شاید شامل رہا ہو۔ وہ جب ابھی کمسن تھی، اس کے یقیناً کچھ خواب رہے ہوں گے، نپے تلے عام معصومانہ خواب لیکن بدقسمتی کے کسی طے شدہ لمحے میں ان خوابوں کے فطری بہاؤ کے آگے خون کی ایک لکیر بند باندھ دیتی ہے۔ وہ جن خوابوں میں روز رنگ بھرتی تھی، اس میں ابدی سرخ رنگ ہمشہ کیلئے شامل ہوتا ہے۔ 'یہ یکم جولائی 2011 کا سال تھا'۔ ماہ رنگ نے وقت کو حافظے میں قید کر لیا۔ اس دن دو سالہ جبری گمشدگی کے بعد ان کے والد عبدالغفار لانگو کی مسخ شدہ لاش ملتی ہے۔ بلوچوں کی زندگی میں دستاویز محفوظ رکھنے کا زیادہ پختہ رواج نہیں پایا جاتا لیکن گمشدگیوں کے بے وقت طوفان نے ان کو وقت، دن، مہینے، سال اور ساعتیں حفظ کرنے پر مجبور کیا۔

'مہروان والد کے تابوت کے پاس بیٹھے، ان کے خون آلود چہرے کو دیکھتے، ہم پانچ بہنوں اور اکلوتے بھائی کی زندگی یکسر بدل گئی'، اس نے لکھا ہے۔ 13 سال، 6 مہینے، 20 دن قبل کا وہ دن ان کی زندگی کا طفلانہ رخ بدل دیتا ہے، وہ رخ جس میں معصومانہ خوابوں کے نقشے میں رنگ بھرنا شامل تھا۔ ماہ رنگ، سمی دین محمد اور دیگر بلوچ اسلام آباد، گدائی کا کشکول اٹھا کر انصاف کی بھیک مانگنے نہیں آئے ہیں۔ پاکستان بلاشبہ وہ ملک ہے جہاں انصاف ملنے کی خوش فہمی پالنا بے سود ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کے حافظے میں گمشدہ پیاروں کی یادیں اور ہاتھوں میں ان کی تصویریں ہیں۔ وہ دنیا کو اپنے انسان ہونے کے حقوق کی یاد دہانی کرا رہے ہیں۔

رزاق سربازی کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں۔