شاید اسی لئے جمہوریت کو سب سے بڑا انتقام کہا جاتا ہے
جمہوری اور عوامی رہنما کی طاقت کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ لاہور اور پنجاب میں ریاستی جبر اور بدترین کریک ڈاون سے لگا سکتے ہیں۔ تادم تحریر پنجاب میں موٹر وے سمیت تمام قومی شاہراہیں رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کی جا چکی ہیں۔ لاہور میں بڑے بڑے کینٹینرز لگا کر داخلی و خارجی راستوں پر اور ائرپورٹ کو جانے والے راستوں کو سیل کیا جا چکا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کو گھروں سے اٹھا اٹھا کر پابند سلاسل کیا جا چکا ہے اور تمام ٹیلی وژن چینلوں کو نواز شریف اور مریم نواز کی لائیو کوریج کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ یہ اقدامات ایک جمہوری عوامی راہنما کی عوامی طاقت سے ڈر کر اٹھائے گئے ہیں۔ شاید اسی لئے جمہوریت کو سب سے بڑا انتقام کہا جاتا ہے کہ غیر جمہوری قوتیں عوامی طاقت سے ہمہ وقت ایک خوف کا شکار رہتی ہیں۔
کہانی یہاں ختم نہیں ہو گی
اس سارے تماشے کے بعد اب یہ بات بے معنی ہو چکی ہے کہ نواز شریف اور مریم کا استقبال کرنے آج کتنی تعداد میں عوام باہر نکلتی ہے۔ کیونکہ نواز شریف اور مریم نے وطن عزیز میں بنا قدم رکھے ہی تمام دیدہ اور نادیدہ قوتوں کو بیک فٹ پر دھکیلتے ہوئے انہیں پورا ملک جام کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ریاستی جبر کے سامنے ایک عوامی سیاستدان نہ تو بندوق لے کر کھڑا ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے ورکرز کو ایسا کچھ کرنے کا حکم دیتا ہے، اس لئے وقتی طور پر اسے دبایا جا سکتا ہے۔ شاید نواز شریف کو ابو ظہبی میں ہی گرفتار کر لیا جائے یا وطن میں طیارہ لینڈ کرتے ہی انہیں اور مریم کو اڈیالہ جیل بھجوا دیا جائے۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہو گی۔
مشرف کی ایمرجینسی پلس اس کے دعووں کی مانند کھوکھلی ثابت ہوئی
جو بیانیہ نواز شریف اور مریم نے تشکیل دے دیا ہے اور جو سوالات ان دونوں شخصیات نے گلی محلوں میں بیٹھے عام افراد کے لبوں پر لا کھڑے کیے ہیں، ان کے جوابات آج نہیں تو کل تمام قوتوں کو دینے پڑیں گے۔ سنہ 2007 میں مفرور کمانڈو جنرل مشرف نے جو اس وقت صدر پاکستان تھا، ایمرجینسی نافذ کی تھی اور اسے گمان تھا کہ عوام کو جبر سے دبا کر وہ اپنے اقتدار کو دوام بخش سکے گا لیکن مشرف کی ایمرجینسی پلس اس کے دعووں کی مانند کھوکھلی ثابت ہوئی اور عوام نے جمہوریت کو بحال کروا کر ہی دم لیا۔
نواز شریف اور مریم کا سلاخوں کے پیچھے گزرتا ایک ایک لمحہ نادیدہ قوتوں پر صدیوں کی مانند بھاری ہوگا
یہ وہ دور تھا جب عوام میں بہت زیادہ شعور نہیں تھا اور ڈیپ سٹیٹ کے کردار پر بات کرنا بھی گناہ کبیرہ تصور ہوتا تھا۔ اس کے برعکس موجودہ دور میں اب عوام باشعور ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ پردے کے پیچھے سے ڈوریاں ہلا کر کون متخب وزرائے اعظم کو چور ڈاکو اور قاتل قرار دلوا کر کبھی سولی چڑھواتا ہے اور کبھی سلاخوں کے پیچھے بھیجتا ہے۔
تو ایسے حالات میں یہ گمان کرنا کہ چند دن سیاسی کارکنوں پر کریک ڈاون کر کے اور شہروں کو بند کر کے سفید کو سیاہ قرار دلوا دیا جائے گا، ایک احمقانہ سوچ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ نواز شریف اور مریم کا سلاخوں کے پیچھے گزرتا ایک ایک لمحہ نادیدہ قوتوں پر صدیوں کی مانند بھاری ہوگا اور ان دونوں شخصیات کو ایک انتقامی اور فرمائشی مقدمے کے نتیجے میں سنائی گئی سزائیں جلد ہی انہیں پابند سلاسل رکھنے کے لئے ناکافی ہو جائیں گی۔ وقت اور حالات اب سنگینوں اور نیزوں کے سہارے بستیوں پر حکمرانی کے لئے موافق نہیں رہے ہیں۔
یہ تو طے تھا کہ اس حبس اور جبر کی فضا کا ایک نہ ایک دن خاتمہ ضرور ہونا ہے
جن زنجیروں کی صداؤں سے عوام کو ڈرایا دھمکایا جاتا تھا، ان زنجیروں کو شوق سے گلے کا ہار بنا کر نواز شریف اور مریم نواز نے توڑ ڈالا ہے۔ جن عقوبت خانوں اور زندانوں کی دہشت کے بل پر خوف کی فضا قائم رکھ کے عوام الناس کو ایک ان دیکھی فکری غلامی میں مقید رکھا جاتا تھا ان کا ڈر اور خوف بھی اب ختم ہو چکا ہے۔ یہ تو طے تھا کہ اس حبس اور جبر کی فضا کا ایک نہ ایک دن خاتمہ ضرور ہونا ہے جبھی تو فیض احمد فیض نے کہا تھا "لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے"۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ان زنجیروں کو توڑنے میں ہراول دستے کا کردار پنجاب کے رہنماؤں نے ادا کیا ہے۔
نواز شریف اور مریم نواز نے پنجاب کے ان گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے
پنجاب سے اکثر یہ گلہ کیا جاتا تھا کہ یہاں کے رہنما اور ووٹر ہوا کے رخ پر چلتے ہوئے ناخداؤں کی اطاعت پر یقن کامل رکھتے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز نے نہ صرف پنجاب کے ان گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے بلکہ ملکی سیاست کی ہئیت کو یکسر تبدیل بھی کر کے رکھ دیا ہے۔
"مجھے کیوں نکالا" اور "ووٹ کو عزت دو" کے بیانئے چند مہینوں میں تمام تر پراپیگنڈوں پر حاوی آ گئے
اب عمران خان جیسی کٹھ پتلیوں کے لئے بیساکھیوں کے دم پر عوامی سیاست کرنا زیادہ عرصے تک ممکن نہیں رہے گا۔ وہ قوتیں جو پردے کے پیچھے سے ڈوریاں ہلاتے ہوئے سازشوں کے جال بنتی آئی ہیں ان کے لئے آنے والے وقت میں اب یہ اقدام اٹھانا ناممکن ہوتا جائے گا۔ آپ نے مین سٹریم میڈیا پر سینسر شپ عائد کر کے سکرینوں پر مالشی قسم کے جعلی صحافی بٹھا کر نواز شریف کی کرپشن کا راگ مسلسل پانچ سال قوم کو سنایا اور عمران خان جیسے بدتہذیب اور اخلاقیات سے عاری شخص کو قوم کا نجات دہندہ قرار دلوانے کی کوشش بھی کی لیکن اس تمام تر پراپیگنڈے کے باوجود نواز شریف کے "مجھے کیوں نکالا" اور "ووٹ کو عزت دو" کے بیانئے چند مہینوں میں تمام تر پراپیگنڈوں پر حاوی آ گئے۔
حسن عسکری رضوی نے بالآخر اپنے نام میں لفظ عسکری کے مفہوم کو سب پر آشکار کر دیا
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب عوام پراپیگنڈے پر یقین نہیں کرتی اور نہ ہی کسی عوامی رہنما کو ان کے دلوں سے کسی بھی قسم کے منفی ہتھکنڈے استعمال کر کے نکالا جا سکتا ہے۔ نادیدہ قوتوں کے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرنے پر تو کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی لیکن ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے بالآخر اپنے نام میں لفظ عسکری کے مفہوم کو سب پر آشکار کر دیا۔ یہ صاحب نگران وزیر اعلیٰ پنجاب بننے سے پہلے ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر بیٹھ کر گھنٹوں عمران خان کی جتھوں سمیت پارلیمنٹ اور دیگر سرکاری اداروں پر یلغار کو جسٹیفائی کیا کرتے تھے۔ اور جمہوری حقوق پر لمبے چوڑے بھاشن بھی دیا کرتے تھے۔ لیکن اب ظلم و جبر اور آمریت کے نظریات پر بیعت کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ میں مصروف ہیں۔
واز شریف اور مریم نواز کامیاب ہو چکے ہیں
اس لڑائی میں نواز شریف اور مریم نواز کامیاب ہو چکے ہیں کہ وہ عام آدمی کو گزشتہ ستر برس سے رونما ہونے والے واقعات کی وجوہات اور اسباب سمجھانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ بصد شوق نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کیجئے لیکن تاریخ کا مطالعہ بھی ضرور کیجئے گا جو واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کرتی ہے کہ نظریات اور بیانئے کبھی بھی پابند سلاسل نہیں کیے جا سکتے۔ جو لوگ عارض وطن پر اجالوں کی روشنیاں لانے کا باعث بنیں انہیں کال کوٹھڑیوں کے اندھیرے اور ظلم کی سیاہیاں کبھی شکست نہیں دینے پاتیں۔ ایسے لوگ یا تو جیت جایا کرتے ہیں یا پھر نظریے کی صورت امر ہو جایا کرتے ہیں۔