کچھ قومی سطح کی ایسی غلطیاں ہیں جو دھائیوں سے دہرائی جا رہی ہیں مگر ہم نے ان کی اصلاح کے لئے کوئی کوشش نہیں کی اور اگر کی بھی ہے تو اس میں ذاتی مفادات کا عنصر حاوی رہا ہے۔
ان اصلاحات کو ریاست، آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کے لئے نہیں کیا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن ریاستوں میں انصاف کا نظام غیر جانبدار اور شفاف تھا ان کا اندرونی یا بیرونی خطرات کچھ نہیں بگاڑ سکے۔
آج ہمارے نظام عدل کا جو حال ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ ہماری تاریخ میں ججز کا کردار بوقت ضرورت انصاف کی بجائے کچھ اور ضروریات کے گرد گھومتا رہا۔
ایک عام شہری کے حقوق سے لے کر ریاست کے آئین کی حفاظت تک کی ذمہ داری نظام انصاف پر آتی ہے۔ لہذا اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے اور ایسی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے جس سے قابل، اہل اور اچھے کردار کے ججز کی تعنیاتیوں کو عمل میں لایا جا سکے۔
اگر نظام عدل میں قابل، اہل اور اچھے کردار کے ججز کو تعینات کیا جائے تو وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے تمام خطرات سے نمٹنے کی جرات اور جذبہ رکھتے ہیں۔ ان کو اپنی جان، مال اور عزت سے زیادہ ذمہ داریوں کی پرواہ ہوتی ہے۔
اسی سے جڑا مسئلہ قانون کی پاسداری میں ناکامی ہے۔ ہم تمام مشکلات کا حل قانون بنانے کو ہی سمجھتے ہیں۔ قانون پر عمل میں کوتاہیوں پر ایک اور قانون اور اتھارٹی بنا دیتے ہیں جس سے مزید کشمکش اور ریاست پر مالی بوجھ ڈال دیتے ہیں مگر پہلے سے موجود قانون اور اداروں کو مضبوط اور جوابدہ بنانے پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔
اس کو انتظامی اور عدالتی امور کی مضبوطی اور توازن سے ہم آہنگ کرکے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم نظام عدل کو سیاست کا حصہ نہ بناتے اور اس کو مضبوط رہنے دیتے تو یہ قومی غلطیاں ابتدا ہی میں رک جاتیں اور یہ نوبت نہ آتی ۔
ایک اور قومی مسئلہ تعلیم و تربیت کا ہے جس نے نام نہاد خود اعتمادی کے نام پر عدم برداشت، جہالت اور بدتمیزی کی ثقافت کو پروان چڑھایا ہے جس میں زیادہ تر پرائیویٹ سکولوں کے نظام کا کردار ہے۔ لہذا بنیادی تعلیم کے شعبے کو حکومت کی تحویل میں ہونا چاہیے جس میں ایک جیسا نصاب اور تربیت ہو۔ قوم کے اندر ملک وقوم اور اس کی املاک کی ملکیت واہمیت کے احساس کو اجاگر کیا جا سکے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ کردار سازی پر زیادہ توجہ دی جائے۔
ایک بڑی قومی غلطی عوامی خزانے سے مہیا وسائل اور وظائف میں تفریق ہے جس نے معاشرے کے اندر محرومی اور طبقاتی تقسیم کو پیدا کیا ہے۔ ملک میں انتشار، بدنظمی اور کشمکش کی وجوہات میں ایک بہت بڑی وجہ اس تفریق کی بنیاد پر مہیا کئے گئے ان آسودہ حال افراد کا بھی ہاتھ ہے جو پہلے دوران سروس ان وسائل اور اختیارات کے استعمال سے من مانیاں کرتے رہتے ہیں اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد ایک مافیا بن کر ملکی نظام کو جام کئے رکھتے ہیں۔ اس تفریق نے ہمارے ملک کے اندر ظالمانہ تقسیم کی بنیاد پر ایلیٹ اور عام شہریوں کے تاثر کو جنم دیا ہوا ہے۔
لہذا مساوات کو قائم کرتے ہوئے اصلاح کی غرض سے ان وسائل اور اختیار میں مساوات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے جو قومی سرمایہ اس غیر مساویانہ تقسیم کی مد میں چند ہاتھوں میں جا رہا ہے۔ اسے صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات پر استعمال کرکے سب کے لئے برابری کی بنیاد پر سہولیات مہیا کرکے ہر ایک کی ضروریات کو بہم پہنچایا جاسکتا ہے۔ جس سے ناصرف برابری پیدا ہوگی بلکہ محرومیوں کا بھی خاتمہ ہوگا۔
نظام کو مستحکم بنانے کے لئے ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے ایسی اصلاحات لانا ہونگی جن سے سیاست کو قومی وسائل اور طاقت سے لیس افراد کی خواہشوں اور من مانیوں سے محفوظ کیا جا سکے اور حکومتی معاملات میں مداخلت کو بھی ختم کیا جاسکے۔ اسے محض اعلیٰ عہدوں پر تعینات شخصیات کی سوچ کے مرہون منت نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس عدم استحکام کے خوف کو بہرحال ختم کرنا ہوگا اور تمام ریاستی اداروں کو احساس دلانا ہوگا کہ یہ وسائل، اختیارات اور طاقت کا تعلق قومی ذمہ داریوں سے ہے اور ان کے استمال میں تجاوز مجرمانہ فعل ہے جس کی جوابدہی کو یقینی بنانے کے لئے عملی مثالیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
میڈیا چینلز کو کاروباری لوگوں کے چنگل سے آزاد کروانا ہوگا وگرنہ یہ مافیا جمہوریت کا کوئی بس نہیں چلنے دے گا۔ یہ صحافت کو یوں ہی غلام بنائے رکھے گا جس سے انٹیگرٹی، ایمانداری اور غیر جانبداری یوں ہی روزی کی خاطر رسوا اور نام نہاد صحافتی مداری قوم کو تماشے دکھاتے دکھاتے قومی سلامتی کو کمزور کرتے چلے جائیں گے۔
میڈیا چینلز کی منظوری اور رجسٹریشن کے لئے صحافت کا تجربہ اور اچھی شہرت کے حامل افراد کی شمولیت کی پالیسی اپنانا ہوگی۔ وگرنہ یہ سیاسی حالات اسی طرح سے ہائی جیک ہوتے رہیں گے۔ کسی بھی شے کی خوبصورتی اس کے ساتھ متعین حدود وقیود سے ہی ہوتی ہے اور اس کو سمجھتے ہوئے جنرل ازم سے منسلک طبقہ کو بھی اپنے لئے کوئی متفقہ نظم وضبط اپنانا اور تسلیم کرنا ہوگا وگرنہ یہ کاروباری اپنے مقاصد حاصل کرکے علیحدہ ہو جائیں گے اور صحافت اپنی رہی سہی ساکھ بھی کھو بیٹھے گی۔
آج کل کی نام نہاد فضول کی جذباتی صحافت جو وی لاگز پر چند ہزار ویوز کی خاطر ملکی سلامتی سے کھیل رہی ہے کو جتنی جلد ہو سکے روکنا چاہیے۔ اس وقت ہماری سب سے بڑی غلطی جو ابھی جاری ہے اور جس کا کوئی مداوا بھی نہیں ہوگا وہ فوج کے خلاف نفرت کو پھیلانا ہے اور عوام کو فوج کے خلاف لا کر کھڑا کرنا ہے۔
جب فوج نے غیر جانبداری کا اعلان کر دیا ہے اور عمل سے ثابت بھی کر رہے ہیں تو پھر اس طرح کی افواہیں پھیلانے اور الزامات لگانے والی سرگرمیوں کو بزور طاقت روکنے کی ضرورت ہے اور یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ صحافت اور سیاست کے بہروپیوں کو کنٹرول کرے اور اگر کوئی معمولی سا بھی الزام لگائے تو اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔
ملک اداروں سے ہوتے ہیں اور اداروں کی طاقت عوام کی پشت پناہی سے ہوتی ہے۔ ان قومی بے وقوفیوں کے وجہ سے ہماری قومی توانائی، وقت اور صلاحیتوں کا استعمال غلط سمت میں استعمال ہو کر بہتری کی بجائے مزید بدحالی کا سبب بنتا جا رہا ہے لہذا ہمیں ان کا سدباب کرکے ترقی اور پائیداری کے سفر کا آغاز کرنا ہوگا۔