رعایتی روسی خام تیل کی دوسری کھیپ کے لیے مذاکرات جاری

رعایتی روسی خام تیل کی دوسری کھیپ کے لیے مذاکرات جاری
وزیر مملکت پیٹرولیم مصدق ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان رعایتی روسی خام تیل کی دوسری کھیپ خریدنے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرمملکت پیٹرولیم مصدق ملک کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ پاکستان کو روسی خام تیل سے ”فائدہ“ نہ ہوا ہو۔ پاکستان ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) میں ایک لاکھ ٹن روسی خام تیل کے پہلے کارگو کا کامیاب تجربہ کرچکے ہیں۔ اب ہم ایک اور کارگو کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ روسی خام تیل کی دوسری کھیپ کے لئے روس سے مذاکرات کررہے ہیں۔

مصدق ملک نے اعتراف کیا کہ روسی سے خام تیل کی مال برداری اور انشورنس کی لاگت زیادہ ہے۔ تاہم عرب لائٹ آئل کے مقابلے میں ریفائننگ کے بعد فرنس آئل کی پیداوار زیادہ ہے۔ اس سے ہمیں اب بھی فائدہ ہوگا۔

وفاقی وزیر نے دوسری کھیپ میں تیل کی مقدار بتانے سے گریز کیا۔ جب کہ پاکستان کو ملنے والی پہلی کھیپ کی قیمت یا رعایت کے حوالے سے بھی تفصیلات نہیں بتائیں۔

اس سے قبل 17 جون کو  ایک بیان میں مصدق ملک نے کہا تھا کہ پاکستان کو روسی تیل خریدنے سے کوئی نقصان نہیں البتہ کتنا فائدہ ہوگا یہ نہیں بتا سکتا۔ جو لوگ کہہ رہے ہیں روسی تیل کا فائدہ نہیں تو ماضی میں کیوں روسی تیل کی بات کیا کرتے تھے۔ روسی تیل سستا نہیں تھا تو لانے کے اعلانات کیوں کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ روس میں تقریباً 8 قسم کے خام تیل دستیاب ہیں۔ ہم روس سے یورول خام تیل لے رہے ہیں۔ ملک کی ریفائنریز لائٹ عربین خام تیل ریفائن کرنے کیلئے ڈیزائن ہیں۔ عربین لائٹ خام تیل کے ساتھ 30 سے 35 فیصد تک یورول کو ملا کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔  روسی خام تیل کی ریفائنری سے فرنس آئل کی پروڈکشن بڑھ جائے گی۔ خام تیل کو ریفائنری میں پراسیس کیا جائے گا جس کا فائدہ مقامی مارکیٹ کو ہوگا جب کہ ایک سے ڈیڑھ ماہ میں آذربائیجان سے بھی سستی گیس ملے گی۔

ایک اور بیان میں مصدق ملک نے کہا کہ یہ ایک لاکھ ٹن کا سودا ہے جس میں سے 45 ہزار ٹن کراچی پہنچ چکا جب کہ باقی 55 ہزار ٹن راستے میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے دیگر ممالک کو ڈالر میں کی جانے والی ادائیگیوں میں توانائی کی درآمد کا بڑا حصہ شامل ہے۔

واضح رہے کہ اپریل میں طے پانے والا پہلا کارگو گزشتہ ماہ کراچی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تھا اور اس کی ادائیگی چین کی کرنسی میں کی گئی تھی۔ پاکستان نے روس کے ساتھ یہ معاہدہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کے لیے کیا جو بنیادی طور پر تیل کی درآمد پر استعمال ہوتے ہیں۔