رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی نے میڈیا کی آزادی پر حملوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حمید ہارون کے مطابق اس وقت میڈیا کڑی پابندیوں کا شکار ہے۔ میڈیا کو تو چھوڑیے، وطن عزیز میں تو کھل کر اظہار رائے کا اظہار بھی اپنی زندگی کو داؤ ہر لگانے والی بات ہے۔ وطن عزیز کے سیاہ و سفید کی مالک اصل قوتیں اس امر سے نابلد نظر آتی ہیں کہ پلکوں کو سی کر اگر موسموں کی جاننے پہچاننے کی شرط رکھی جائے اور افکار کی وسعتوں کے پر کتر کے ان کو قید کر کے حبس زدہ موسم سے رہائی کی خواہش کو اک جرم قرار دے دیا جائے تو پھر سماج اس قیدی کی مانند ہو جایا کرتا ہے جو بیڑیوں میں مقید محض سانسوں کے چلنے کو مقصد حیات سمجھتے ہوئے خود بخود جمود کے جوہڑوں میں پڑا کہیں رینگتا رہتا ہے۔ سماج کا حسن اور اس کا پنپنا دراصل آزادی افکار، آزادی اظہار رائے اور تحقیق و آگہی کی خوشبو سے مشروط ہوتا ہے۔ اختلاف رائے کسی بھی نظریے، عقیدے یا خیال کے لئے لٹمس (litmus) ٹیسٹ کا کام دیتا ہے۔ اختلاف رائے دراصل افکار کی وسعتوں کی مدد سے نظریات یا تھیوریز کو مختلف زاویوں سے پرکھتے ہوئے انہیں نئے پہلووں سے روشناس کرواتا ہے۔ اگر تو کوئی بھی نظریہ، عقیدہ یا سوچ حقیقتاً سچی اور خالص ہو تو اختلاف رائے اسے مزید جلا بخشنے کا کام دیتا ہے جبکہ خود ساختہ نظریات یا روایات اختلاف رائے کی تاب نہ لاتے ہوئے دلیل و منطق کی طاقت سے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔







جو بھی روس کے اصل حالات کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کرتا وہ کے جی بی کے ہاتھوں لاپتہ ہو جاتا

روس کی مثال اس ضمن میں سب کے سامنے ہے۔ ایک طرف جہاں کولڈ وار کے زمانے میں روس اندر سے ٹوٹ رہا تھا، بھاری بھرکم اسلحہ ضرورت سے زیادہ بڑی فوج اور اس پر خرچ ہونے والے وسائل نے روس کی معیثت کا بٹھا بٹھایا ہوا تھا تو دوسری جانب اظہار رائے پر مکمل قدغن تھی۔ جو بھی شخص روس کے اصل حالات کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کرتا وہ کے جی بی کے ہاتھوں لاپتہ ہو جاتا اور پھر کچھ عرصے بعد اس کی لاش ورثا تک پہنچ جاتی تھی۔ اسـں قدغن نے روس کے اندر ایک خوف کی فضا طاری کر دی تھی؛ عوام خوف کے عالم میں ایک گھٹن زدہ فضا میں سانس لیتے رہے اور پھر روس افغانستان پر حملہ کرنے کے بعد معاشی طور پر دیوالیہ ہو گیا۔ عسکری محاذ پر بھی اسے شکست فاش ہوئی۔ نتیجتاً متحدہ روس کے ٹکڑے ہوئے اور عوام نے خوشی خوشی آزادی کی چاہ میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر رہنے کو ترجیح دے دی۔ نہ تو اس ـوقت کوئی بھی جذبہ حب الوطنی انہیں ٹکڑوں میں بٹنے سے روک پایا اور نہ ہی کوئی طاقت ان کی آواز کو معاشی محاذ پر شکست کے بعد کسی جبر سے دبا سکی۔



مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کو غدار اور سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا

اسی طرح مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی سیکھنے والوں کے لئے ایک عبرتناک سبق ہے۔ مـشرقی پاکستان میں بسنے والوں کو ان کے حقوق نہ دے کر رفتہ رفتہ ان کے دلوں میں نفرت کے بیج پروان چڑھائے گئے۔ ان کے دانشوروں اور رہمناؤں کو آہستہ آہستہ غدار اور سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا اور پھر تنقید یا اختلاف کرتی آوازوں کو جبر سے دبانے کی کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ سنہ ستر کے انتخابات کے بعد واضح اکثریت سے انتخابات جیتنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار دینے سے انکار کرتے ہوئے اس کے سربراہ شیخ مجیب کو غدار اور سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔



مشرقی پاکستان کے ووٹرز اور شیخ مجیب کو ادھر ہم ادھر تم جیسے نعروں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اور پھر شیخ مجیب نے بغاوت کرتے ہوئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ شیخ مجیب اور اس کی جماعت کو کچلنے کے لئے عسکری طاقت استعمال کی گئی لیکن سقوط ڈھاکہ ہو کر رہا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں دبی نفرت جو احساس محرومی، اظہار رائے کو کچلنے اور حق نمائندگی کو تسلیم نہ کرنے سے پیدا ہوئی تھی اس نے پاکستان کو دو لخت کر دیا۔ ان دونوں واقعات سے ایک انتہائی سیدھا اور آسان سبق ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خوف کے دم پر قائم ریاستیں ریت کے ڈھیر کی مانند ہوتی ہیں جنہیں حالات و واقعات کے سیلاب کا ایک معمولی سا ریلا بھی بہا کر لے جایا کرتا ہے۔ ریاستیں اسی صورت قائم و دائم رہا کرتی ہیں جب وہاں بسنے والے خوف کے بجائے محبت اور اعتماد کی وجہ سے ریاست سے ایک رشتے میں بندھے ہوتے ہیں اور یہ رشتہ ماں بیٹے جیسا ہوتا ہے۔ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے اور شہری بیٹوں کی مانند۔ لیکن اگر ریاست چودھری کا کردار ادا کرنا شروع کر دے اور پرامن طور پر اختلاف رائے رکھنے والوں کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتے ہوئے ان کو کچلنا شروع کر دے تو پھر خوف کا یہ رشتہ معاشرے میں حبس کی فضا پیدا کر دیتا ہے اور تاریخ کا سبق یہی ہے کہ حبس زدہ معاشرے ایک نہ ایک دن خود حبس کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔



جبر ہے ہی خوف کی علامت

بدقسمتی سے تاریخ سے سبق سیکھنا بہت کم انسانوں یا قوموں کو نصیب ہوتا ہے۔ مینڈیٹ کو کچل کر اور اظہار رائے کو دبا کر مشرقی پاکستان دو لخت ہوا۔ اسی طرح جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں کو کچلا گیا اور آخرکار انہوں نے گوری اشرافیہ سے آزادی حاصل کر لی۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں تنقید کرتی آوازوں کو دبایا جاتا ہے یا آزادی اظہار رائے کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے وہاں سماج کا توازن بگڑنا شروع ہو جاتا ہے اور نتیجتاً سماجی اور سیاسی ڈھانچے کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ نفرت اور جبر کسی بھی طور دلیل کا سامنا نہیں کرنے پاتے اور نہ ہی نفرت و جبر کی حبس زدہ فضائیں زیادہ دیر دلیل اور منطق کی روشنی کو دبا کر رکھ سکتی ہیں۔ اگر کسی کا نظریہ یا خیال غلط ہے اور اس کا پرچار پرامن طریقے سے کیا جاتا ہے تو پھر اسے بزور طاقت کچلنے کی ضرورت ہی نہیں ہوا کرتی کہ وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے لیکن اگر کسی کو کچلا جائے اور اس کے اظہار رائے پر پابندی لگائی جائے یا اس کے مینڈیٹ کو مختلف طریقوں سے رد کیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جبر کرنے والا دراصل خوفزدہ ہے اور طاقت کے دم پر اس نظریے یا سوچ کو کچلنا چاہتا ہے۔



گھر ہوں یا معاشرے ان میں شور شرابے سے ہی رونق ہوا کرتی ہے، سکوت قبرستانوں کی پہچان کہلاتا ہے

طوفان کبھی بھی بتا کر نہیں آیا کرتے لیکن طوفانوں کے آنے سے پہلے ایک گہرا سکوت اور خاموشی ضرور ہوا کرتی ہے۔ معاشرے میں اس خاموشی کو نہ پیدا ہونے دینا ریاست اور ریاستی ستونوں کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ توہین یا غدّاری کے فتوے لگا کر صدیوں پہلے مخالفین اور غلاموں کو کچلا جاتا تھا لیکن اب دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔ خبر اور حقائق سیکنڈز میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ گمان کرنا کہ صدیوں پرانے فارمولے کو اپنا کر اس بدلتی دنیا میں بھی شعوری طور پر پچھلی صدی میں عوام کو بسایا جا سکے گا یہ ایک خوش فہمی تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت نہیں۔ گھر ہوں یا معاشرے ان میں شور شرابے سے ہی رونق ہوا کرتی ہے، سکوت قبرستانوں کی پہچان کہلاتا ہے۔ اختلاف کا حق اظہار رائے کا حق اورعوام کے دیے گئے مینڈیٹ کا احترام معاشروں کی بقا کا ضامن اور ان کے پھلنے پھولنے کا باعث ہوا کرتا ہے۔ روس نے یہ سبق ٹوٹنے کے بعد سیکھا۔ عرب دنیا کو اس امر کی نشاندہی عراق، مصر اور شام کو آگ وخون میں نہلانے کے بعد ہوئی۔ امید غالب ہے ہم سقوط ڈھاکہ اور عرب دنیا کی مثالوں کے تلخ تجربے کو مد نظر رکھتے ہوئے اب اس حقیقت کا ادراک کر لیں گے اور جانتے بوجھتے اظہار رائے کو جرم قرار دے کر اور عوامی مینڈیٹ کی تذلیل کر کے بطور سماج اور قوم خود اپنے پیروں پر کلہاڑی نہیں ماریں گے۔



ہم نے تاریخ کے دستر خوان پر گذشتہ ایک ہزار برس سے حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کیا

جون ایلیا نے کہا تھا کہ ہم نے تاریخ کے دستر خوان پر گذشتہ ایک ہزار برس سے حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اب اگر سماج میں بسنے والی آبادی کے ایک حصے کو جرات تحقیق اور زمان و مکاں کی بے کراں وسعتوں کو جان لینے کی عادت پڑ رہی ہے تو کم سے کم ان کی آزادی اظہار اور سوچ کو دبانے کے بجائے ہم انہیں افزائش تحقیق کا ماحول دے کر اگلے آنے والے مزید ایک ہزار سال پھر تاریخ کے دسترخوان پر محض جگالی کرنے سے بچا سکتے ہیں۔ بینائی اور سماعتوں پر پہرے لگانے والی قومیں حال اور مستقبل کو اپنے ہاتھوں سے دفن کر دیا کرتی ہیں۔ گذشتہ ستر برس میں ہم نے سماعتوں کو جرم قرار دے کر اور بینائی رکھنے کو گناہ قرار دے کر اس کا نتیجہ ایک شدت پسند سماج اور کمزور اور اپاہج سیاسی اور انتظامی ریاستی ڈھانچے کی صورت کے طور پر دیکھ لیا ہے۔ امید ہے ارباب اختیار اب آزادی افکار کی خواہش کو سماج کے لئے آزار سمجھنا بند کر دیں گے اور زنجیروں کی بے صدا صداؤں سے سماج میں خوف پھیلانے کا سلسلہ اب بند کر دیا جائے گا۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔