ایک دور تھا کہ پاکستانی ڈرامے ہماری دنیا بھر میں پہچان ہوا کرتے تھے۔ ان ڈراموں میں جہاں ہنستے مسکراتے چہرے دکھائی دیتے تھے وہیں بہت سے معاشرتی مسائل کو انتہائی اچھوتے انداز میں پیش کیا جاتا تھا۔ پی ٹی وی اکیلا تھا لیکن مقدار اور تعداد سے زیادہ یہاں content کے معیار پر توجہ دی جاتی تھی۔ پھر حالات بدلے۔ پی ٹی وی کا عروج کا دور ختم ہوا۔ کیبل ٹی وی آیا اور پھر نجی ٹیلی وژن کو بھی مکمل آزادی دے دی گئی جس کے بعد درجنوں ٹی وی چینل اگلے چند سال میں ہی وجود میں آ گئے۔ ابتدا میں یہ بھارتی ٹی وی چینلز کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے لیکن پھر چند شاندار ڈراموں نے انہیں مقبولیت بخشی اور حالات تبدیل ہونے لگے۔ ان ڈراموں میں جیو ٹی وی کا ’میری ذات ذرہ بے نشاں‘ اور ہم ٹی وی کے ’ہمسفر‘ اور ’قیدِ تنہائی‘ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اسی طرح جیو ٹی وی کے ڈرامے ’آزر کی آئے گی بارات‘ اور پھر اگلے تین سالوں میں اسی ٹیم کی بنائی ہوئی تین مزید ڈراموں کی سیریز نے بھی عوام کو بھارتی ٹی وی سے پاکستانی میڈیا کی طرف لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن گذشتہ چند سالوں میں بھارتی ڈرامہ انڈسٹری کے بزنس ماڈل کی طرز پر یہاں بھی ٹی وی چینلز نے معیار کو چھوڑ کر تعداد پر توجہ دینا شروع کر دی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ڈراموں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن عوام کو اچھی تفریح نہیں مل رہی۔ یہ چینلز بھول چکے ہیں کہ ان کی مقبولیت کی اصل وجہ وہ شاندار ڈرامے تھے جو انہوں نے ابتدائی سالوں میں پیش کیے اور شائقین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اب اگر اسی طرح کے ڈرامے بنائے جاتے رہیں گے تو لوگ لامحالہ ارطغرل جیسے غیر ملکی ڈراموں کی طرف رجوع کرنے لگیں گے اور چونکہ یہ اسلامی لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں لہٰذا ان پر بھارتی تہذیب کے حملہ آور ہونے کا الزام بھی لگانا ممکن نہیں۔ اداکار نالاں ہیں کہ ترک ڈرامے یہاں کیوں دکھائے جا رہے ہیں؟ وہ کہتے ہیں اس سے انڈسٹری کو نقصان پہنچے گا لیکن معیاری ڈراموں کے نہ بنائے جانے سے صنعت کو جو نقصان ہوا، اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔
رہی سہی کسر ہمارا پیمرا پوری کر دیتا ہے۔ آزاد خیالی سے ایسی دشمنی ہے کہ ماضی میں اڈاری جیسے شاندار اور اہم ترین موضوع کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا تھا۔ ہمارے سرکاری اداروں میں بیٹھے بابوؤں کو لگتا ہے کہ اگر وہ ڈراموں میں کوئی بات دکھانے سے روک لیں گے تو وہ خودبخود معاشرے سے بھی غائب ہو جائے گی۔ ڈراموں کا معیار بہتر کرنے کے لئے پہلے تو انڈسٹری کو آزاد کرنا ہوگا، اس میں چند مخصوص اداروں کی اجارہ داری کو ختم کرنا ہوگا۔ مشکل موضوعات کو زیرِ بحث لانا ہوگا۔ اس حوالے سے جہاں چینل مالکان کی ذمہ داری بنتی ہے، وہیں سرکاری اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بجائے زبردستی خیالات کی ترسیل کو روکنے کے، ایسے سیمینار اور ڈسکشنز شروع کریں جو اس مسئلے کو بہتر انداز میں ڈیل کرنے کے لئے مدد دے سکیں۔ وہ تو کیا نہیں جاتا، الٹا ڈراموں پر پابندیاں عائد کر کے سمجھا جاتا ہے کہ ذمہ داری پوری ہو گئی۔
حال ہی میں دو ٹی وی ڈراموں پر پابندی لگائی گئی ہے جس حوالے سے نیا دور کے لئے حسنین جمیل نے ایک مضمون بھی لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
پیمرا نے دو ٹی وی ڈراموں ’عشقیہ‘ اور ’پیار کے صدقے‘ پر پاپندی لگا دی ہے اور ایک ڈرامہ سریل جلن کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ الزام یہ لگایا گیا ہے کہ ان ڈراموں کے خلاف بہت زیادہ شکایات موصول ہوئی تھیں جس کے بعد یہ کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ اس سے پہلے فلم سینسر بورڈ نے سرمد سلطان کھوسٹ کی فلم ’تماشہ‘ پر بھی پابندی لگائی گئی تھی۔ پچھلی حکومت نے عاشر عظیم کی فلم ’مالک‘ پر پابندی عائد کی تھی۔ فلم اور ٹی وی سے وابستہ لوگوں کا اگر ایک بین الاقوامی جائزہ لیا جائے تو یہ سوچنے سمجھنے والے تخلیقی لوگ ہوتے ہیں۔
سماج کے سیاسی، تاریخی، تہذیبی حالات کا مشاہدہ کرنے والے لوگ ہوتے ہیں، کوئی بھی سکرپٹ رائٹر معاشرتی مطالعہ کے بعد ایک کہانی لکھتا ہے۔ پھر اس کو باقاعدہ سکرپٹ کی شکل میں ڈھالتا ہے اور ڈرامہ یا فلم بناتا ہے۔ سکرپٹ رائٹر اپنی کہانی اسی زمین کے کرداروں سے تلاش کرتا ہے۔ کہانی کی تلاش کے لیے اس کو مریخ پر یا کسی اور سیارے پر جانے کی ضرورت نہیں۔ کرہ ارض پر موجود ہر انسان اپنے چہرے پر ایک کہانی لیے گھوم رہا ہے ۔ سطور بالا میں جن ڈراموں پر پیمرا کی طرف سے پاپندی لگائی گئی ہے ان کی کہانیوں پر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ان ڈراموں میں سالی اور بہنوئی کی محبت دکھائی جا رہی ہے، سسر اور بہو کے تعلقات کو موضوع بنایا جا رہا ہے۔ یہاں ایک سوال کھڑا ہوتا ہے کیا یہ سب ہمارے معاشرے میں نہیں ہوتا؟
مگر جب یہ سب خرافات اس سماج میں موجود ہیں تو پھر سکرپٹ رائٹر پر دشنام طرازی کیوں، اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کہتے تھے میری تحریروں میں جو برائیاں ہیں وہ درحقیقت سماج کی برائیاں ہیں۔ مسئلہ مجھ میں نہیں سماج میں موجود ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ بیورو کریٹ چودھری محمد حسین جو منٹو صاحب اور قرۃ العین حیدر کی تحریر میں فحش نگاری اور دو قومی نظریے کی نفی ڈھونڈ لیا کرتا تھا وہ آج بھی زندہ ہے اور کسی دوسرے سرکاری آفیسر کی شکل میں موجود ہے۔ جو ڈرامے اور فلموں پر پابندی لگا دیتا ہے۔ کیا سنسر بورڈ اور پیمرا میں بیٹھ کر فیصلہ سازی کرنے والوں کی ذہنی سطح اس لیول کی ہوتی ہے کہ وہ دانشوروں کے کاموں پر انگلی اٹھائیں؟ ہرگز نہیں! ہمیں آپ سے دو قومی نظریے اور مذہبی اقدار کی پاسداری کی اسناد نہیں چاہئیں۔ اپنے فتوے اپنے پاس رکھیں۔
پہلی بات تو یہ کہ ہر لکھنے والے کے اپنے دماغ میں سنسر بورڈ ہوتا ہے۔ وہ خود فیصلہ کرتا ہے میں نے سماج نگاری کیسے کرنی ہے؟ لیکن پھر اگر کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام بنانا چاہتے ہیں تو اس نوکر شاہی سے وابستہ لوگوں کے بس کی یہ بات نہیں۔ موجودہ حکومت نے ایک اچھا فیصلہ وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے کیا ہے۔ اسی طرح ٹی وی اور فلم سے وابستہ لوگوں کی کمیٹی بنائی جائے جو ڈرامے اور فلمیں دیکھنے کے بعد فیصلے کرے۔ میں یہاں سکرپٹ رائٹرز محسن شاہ، عاصم شاہ، سرمد سلطان کھوسٹ اور عاشر عظیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ سماجی حقیقت نگاری کا کام احسن طریقے سے کر رہے ہیں۔