میں نےصوفہ ہی بیچ دیا ہے!

میں نےصوفہ ہی بیچ دیا ہے!
قلندر آستانے کے خاص صوفے پر نیم دراز  چرس کے سگرٹ کے کش پہ کش لگا رہا تھا کہ مرید خاص چوہدری چول  بولا: 'حضور صوفہ اسلام میں حرام ہے۔ آنحضور رسالت ما آب حضرت محمد ﷺ صوفے پر  نہیں زمین پر پر بیٹھا کرتے تھے ۔ صوفے کو آگ لگا دیں۔ ملک کے سب سے بڑے عالم نے تو حال ہی میں ایسا کیا ہے۔'

’کس نے؟'

'جناب لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز صاحب نے!‘

’اچھا! جا پٹرول کا ڈبہ لے کر آ۔ اگر میرے مرشد کا کہنا ہے تو پھر کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔‘

چوہدری چول فٹا فٹ شیل پٹرول پمپ سے، جو آستانے کے ساتھ ہی تھا ، پٹرول کا ڈبہ لے آیا۔ قلندر نے چول کو حکم دیا کہ کیمرے سے فلم بنائےاور صوفے پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ سب نے نعرہ مستانہ بلند کیا۔ اسلام محفوظ ہو گیا۔ پھر قلندر نے حکم صادر فرمایا کہ یہ فلم قلندر ڈاٹ کام یعنی آستانے کی آفیشل ویب سائٹ پر ڈال دی جائے ۔ اسی اثناء میں قلندر کا دوسرا مرید فلسفی دیوانہ جو سوچنے سمجھنے کا کاروبار کیا کرتا تھا بولا: ’حضور اسلام میں توتصویر بنانا بھی حرام ہے۔  آپ کیمرے کو بھی آگ لگائیں۔ اپنے حافظ سعید صاحب نے اجتماعی طور پر ٹی وی توڑے بھی جلائے بھی۔ آستانے کے باہر درجنوں لینڈ کروزر کھڑی ہیں۔ آپ اگر سچے عاشق رسول ہیں تو اونٹوں، گھوڑوں اور خچروں پر سفر کیا کریں۔ یہ منافقت کیوں!‘

قلندر کو غصہ تو شدید آیا مگر تھا ہوشیار۔ قابو کر لیا اور بولا: ’جب میرے مرشد حضرت مولانا عبدالعزیز موبائل فون اور لینڈ کروزر کو آگ لگائیں گے تو میں بھی لگا دونگا۔‘  جواب سنکر فلسفی دیوانہ لاجواب ہو گیا۔ پل بھر میں لاونج میں سے راکھ وغیرہ کی صفائی ہو گئی۔ فرش جگ مگ کرنے لگا۔ چرس اور رقص کا دور شروع ہو گیا۔ ریشماں خوب ناچی اور قلندر نے کمال کی سنگت طبلے پر کی۔ رات گئے یہ سلسلہ جاری رہا۔ سب کے جانے کا وقت تھا۔ آستانے کا ایک اصول یہ تھا کہ قلندر سب کو گڈ نائٹ کہنے سے پہلے کوئی قصہ ، داستان، کہانی یا لطیفہ سناتا تھا۔ لیکن آج اس نے کچھ سنائے بغیر جب مریدوں کو شب بخیر کہا تو فلسفی دیوانہ بولا: 'حضور آج کچھ سنائیں گے نہیں!‘

’اوہ! بھول گیا۔ اچھا بیٹھوں۔ سردار جی کا قصہ سناتا ہوں۔ ' قلندر بولا۔

’ایک سردار جی تھے۔ بہت شریف اور ہنس مکھ۔ ان کا بہترین اور قریبی دوست ایک مسلمان تھا۔ دونوں روزانہ شام کو ملتے اور رات گئے خوش گپیوں میں مصروف رہتے۔  اس مسلمان دوست نے محسوس کیا کہ سردار جی چند دنوں سے اداس اور پریشان ہیں۔ گو ظاہر نہیں کرتے لیکن دیکھنے والی آنکھ محسوس کر سکتی تھی کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ دوست نے کریدا تو سردار جی نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بیگم اور نوکر کو اکھٹے صوفے پر رنگ رلیاں مناتے اپنی پرہیز گار پاکیزہ آنکھوں سے دیکھا۔ اس کے بعد سے پریشان ہیں۔ کوئی حل نہیں سوجھ رہا۔ دوست کرید کر شرمندہ ہوا کہ خواہ مخواہ سردار جی کے زخم تازہ کر دیے۔ اپنی شرمندگی چھپانے کے لئے دوست کئی روز سردار جی سے نہ ملا۔ لیکن پیار بہت زیادہ تھا۔ ملے بغیر رہنا بھی ناممکن تھا۔ ایک ویک اینڈ پر آخر کار ہمت کرکے چلا ہی گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ سردار جی بہت خوش ہیں۔ دریافت کیا کہ کیا بات ہے۔ بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔ سردار جی بولے یار میں نے مسئلہ ہی حل کر دیا۔ دوست بولا کہ اچھا کیا نوکر کی چھٹی کر دی اور بیوی کو طلاق دے دی۔ آپ کو کیا کمی ہے نوکروں کی یا عورتوں کی۔ سردار جی نے کہا او نہیں یار۔ ایسا کچھ نہیں کیا میں نے۔ دوست نے کہا پھر آپ نے غلط کام کیا۔ غیرت کے نام پر قتل بہت بڑا گناہ ہے۔ اچھا نہیں کیا آپ نے دونوں کو قتل کر کے۔ او نہیں پاگل۔ ایسا کچھ نہیں کیا ۔ میں نے صوفہ ہی بیچ دیا ہے!‘

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔