’’پولیس ہماری لاشوں پر سے گزر کر مولانا عبدالعزیز کو گرفتار کرے گی‘‘

’’پولیس ہماری لاشوں پر سے گزر کر مولانا عبدالعزیز کو گرفتار کرے گی‘‘
جمعرات کی رات کو لال مسجد کے سامنے طالب علم نماز عشاء باجمات ادا کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ دوسرے ساتھیوں سے درخواست کر رہے تھے کہ فیس بک سے لائیو یہ نماز دکھائیں۔ لال مسجد کی چھت کے چاروں اطراف طالبات تھیں اور اللہُ اکبر کے ساتھ ساتھ الجہاد الجہاد کے نعرے لگا رہی تھیں جن سے 2007 کی لال مسجد آپریشن کی یاد تازہ ہو رہی تھی۔

مسجد کی اندرونی ذمہ داری بشمول سکیورٹی مدرسے کی طالبات کے سپرد تھی اور گیٹ پر بھی نوجوان طالبات پہرہ دے رہی تھیں۔ نماز کے دوران میں مسجد کے گیٹ کی طرف گیا تو ایک نوجوان طالبہ نے میرا لباس دیکھ کر پوچھا آپ میڈیا سے ہو؟ میں نے احتیاط کرتے ہوئے جواب دیا، نہیں، مگر پھر بھی اندر جانے کی اجازت مل گئی۔

مسجد کے بالکل عقب میں مولانا عبدالعزیز کی گاڑی کھڑی تھی جس کے قریب دو نوجوان اسلحے سمیت پہرہ دے رہے تھے۔ میں نے مسجد میں کھڑے ایک طالب علم سے پوچھا کہ یہ پردہ کیوں لگا ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ مسجد کی اس طرف مولانا صاحب ہیں۔

مسجد کے اندر خاردار تاریں بھی پڑی تھیں جن پر ایک طالب علم نے کہا کہ باہر پولیس نے لگائی تھیں اور ہم قبضے میں لے کر اندر لائے۔ مسجد کی تقریباً تمام لڑکیاں فیس بک اور وٹس ایپ پر تازہ صورتحال سے لوگوں کو آگاہ کر رہی تھیں۔ پاس میں کھڑی ایک طالبہ سے میں نے پوچھا کہ یہ اوپر طالبات کیوں کھڑی ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ چھت پر ہم نے بہت سارے پتھر جمع کیے ہیں، اگر پولیس مولانا صاحب کو گرفتار کرنے آئے گی تو یہ اوپر سے پھتراؤ کریں گی تاکہ مولانا صاحب کو مسجد سے نہ نکالا جائے۔



لال مسجد کے چاروں اطراف کو پولیس نے گھیر لیا تھا اور نہ صرف روڈ کو بلاک کیا گیا تھا بلکہ چاروں طرف خاردار تاریں لگی تھیں جب کہ مسجد کے قریب سادہ کپڑوں میں پولیس پہرہ دے رہی تھی۔ مسجد کے اندر حالات پرسکون تھے اور کچھ لوگ نماز پڑھ رہے تھے جبکہ کچھ تلاوت کر رہے تھے۔

باہر آیا تو ایک نوجوان طالب علم لاؤڈ سپیکر پر تقریر کر رہا تھا اور ساتھ ان نوجوانوں کو ہدایات دے رہا تھا کہ ’’یہ دکھا دو دنیا کو کہ دنیا میں صرف ایک کشمیر نہیں بلکہ اسلام آباد کے اندر بھی ایک کشمیر ہے جس کا محاصرہ ہوا ہے اور لوگوں پر کھانا اور پانی بند کیا ہوا ہے۔ حکومت پاکستان سن لو! اگر مولانا کو گرفتار کرنے آئے تو پھر حالات کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ اگر آپ کے پاس لاٹھی اور بندوقیں ہیں تو ہم نے بھی ڈھیر سارے پتھر جمع کیے ہیں اور آپ کے ہر ایکشن کا جواب دیں گے‘‘۔

لال مسجد کے طلبہ پر امن لگ رہے تھے مگر ان کے اندر ایک جنون کی کیفیت تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ اگر حکومت نے کوئی کارروائی کی گئی تو یہ نوجوان ہر صورت مزاحمت کریں گے۔

اسی دوران گاڑی میں ایک مرد اور عورت گاڑی سے نیچے آئے۔ یہ دونوں کچھ پریشان لگ رہے تھے۔ ساتھ میں کھڑے ایک نوجوان نے ان سے پوچھا کہ کیوں پریشان ہو تو خاتون نے جواب دیا کہ پریشان کیوں نہیں ہوں گے، ہماری بچیاں ادھر پڑھ رہی ہیں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ لال مسجد کے خلاف مشرف والا آپریشن ہو رہا ہے، تو کیوں پریشان نہ ہوں۔ نوجوان نے ان کو جواب دیا کہ آپ پریشان نہ ہوں، ہم ہیں نا اپنی بہنوں کی حفاظت کرنے والے۔

کچھ ہی وقت میں اعلان ہوا کہ مولانا عبدالعزیز باہر آ رہے ہیں، جس پر سب طلبہ گیٹ کی طرف دوڑنے لگے۔ مولانا صاحب کا گلا شدید خراب تھا، جس کی وجہ سے ان کی آواز نہیں نکل رہی تھی جبکہ وہ بالکل کمزور لگ رہے تھے۔

نوجوانوں نے الجہاد الجہاد کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ مولانا صاحب نے لاؤڈ سپیکر ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ میں تو باہر آنا چاہتا ہوں مگر سکیورٹی کی ذمہ داری خواتین کے ذمہ ہے، اس لئے مجھے اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ جس پر نوجوان طلبہ نے مولانا تیرے جانثار بے شمار بے شمار کے نعرے لگائے۔ مولانا نے طالب علموں سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پرامن رہو، میں آپ کو آئندہ کا لائحہ عمل جلد بتا دوں گا کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور مولانا صاحب گیٹ سے واپس روانہ ہو گئے۔

اسی دوران ایک پولیس بس سڑک سے گزر رہی تھی جس پر طلبہ نے ہاتھ بلند کر کے نعرے بلند کیے اور یہ ہجوم واپس مسجد کی طرف روانہ ہو گیا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔