پاکستان کے معروف اینکر جاوید چوہدری ایک عرصہ سے کرونا کی وبا کے پھیلنے، اسکے پیچھے چھپی کسی سازش یا اسکی وجوہات اور علاج کے حوالے سے مختلف دعوے کرتے رہے ہیں جن میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہوا تاہم اب وہ ایک اور سنسنی خیز دعوے کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔
اپنے یوٹیوب چینل پر جاوید چوہدری نے پورے وثوق سے اعلان کیا ہے کہ کرونا کی وبا 18 مئی 2020 کو ختم ہوجائے گی اور جون تک اس کا مستقل خاتمہ ہو جائے گا۔ جاوید چوہدری نے اپنی یوٹیوب ویڈیو میں دعویٰ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کے مطابق جب ثریا ستارہ نمودار ہوتا ہے تو دنیا میں آئی وبائیں ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کا تعلق علم نجوم سے نہیں علم فلکیات سے ہے۔ انہوں نے اپنی ویڈیو میں کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی تین احادیث آج کل علما اور اہل علم فلکیات کے ہاں شد و مد سے زیر بحث ہیں۔ ان کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ وہ کرونا کی عالمی وبا سے متعلق ہیں اور اس کے خاتمے کی نوید سنا رہی ہیں۔
ان مختلف احادیث کے راویوں کے مطابق حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ پھلوں کی تجارت تب تک نہ شروع کرو کہ جب تک آفت کا خاتمہ نہ ہو جائے۔ پوچھا گیا کہ وہ کب ہوتی ہے؟ جس پر فرمایا گیا کہ جب ثریا ستارہ نمودار ہو جائے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جب صبح کے وقت ثریا ستارہ طلوع ہوتا ہے تو آفت ختم کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ جب ثریا ستارہ نمودار ہوتا ہے تو اس وقت قوم جس بھی آفت میں مبتلا ہو وہ ختم کر دی جاتی ہے۔
پھر ویڈیو میں جاوید چوہدری ثریا ستارہ کی تعریف کرتے ہیں۔ اور بتاتے ہیں کہ اسے انگریزی میں pleiades کہتے ہیں۔ اور یہ موسم کی تبدیلی کا نشان ہے۔ جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ مسلمان اور قدیم عرب ہمیشہ سے اسی ستاروں کے جھرمٹ سے کاشت کاری اور جہاز رانی کے فیصلے کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ثریا ستارہ 18 مئی سے جنوبی ایشیا میں دیکھا جائے گا اور جون تک یہ واضح ہو جائے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ 18 مئی سے اس وبا کا زور ٹوٹے گا اور جون تک یہ وبا مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ جب کہ آسٹریلیا اور لاطینی امریکا میں یہ ستارہ نومبر، دسمبر میں دکھے گا اس لئے وہاں وبا تب ختم ہوگی۔ ساتھ ہی اپنے دلائل کے حق میں جاوید چوہدری نے یہ دعویٰ بھی جڑ دیا کہ 1918 کی سپینش فلو کی وبا بھی مئی اور جون میں ختم ہوگئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پر اعتماد ہیں کہ اگر ہم احادیث کی حقانیت کو مان لیں تو یہ وبا 18 مئی کو ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ یہ سائنٹفک بات ہے کہ گرمی بڑھنے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھے گا اور اس میں پوشیدہ امراض ختم ہو جائیں گے۔
ویسے تو جاوید چوہدری کے دعؤوں میں بہت سے واضح سقم موجود ہیں لیکن زیادہ تفصیل میں جائے بغیر ایک سائنسی اور ایک تاریخی حقیقت کی نشاندہی سے اس رائی کے پہاڑ کو جانچا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او کی اب تک کی تحقیق اور سفارشات کے مطابق کرونا وائرس وائرس جسمانی رطوبتوں سے پھیلتا ہے۔ جسم کے اندر ایک قدرتی نظام موجود ہے جو اس کے درجہ حرارت کو کم رکھتا ہے اور جسمانی رطوبتوں کا درجہ حرارت بھی وہی ہوتا ہے جو جسم کا۔ اس لئے ماحول کا درجہ حرارت چاہے 50 ڈگری سینٹی گریڈ بھی چلا جائے وائرس کو جسمانی رطوبت کے ذریعے ایک جسم سے دوسرے میں داخلے کے لئے سازگار درجہ حرارت ہی دستیاب ہوگا۔ اس ضمن میں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ کرونا وائرس انتہائی درجہ حرارت پر بھی زندہ رہنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
جہاں تک ثریا ستارے کے نمودار ہونے کے بعد وائرس کے رفع ہونے کا دعویٰ ہے تو تاریخی شواہد بھی اس کے خلاف ہیں۔ ہسپانوی فلو جس کے بارے میں جاوید چوہدری نے دعویٰ کیا کہ یہ گرمیوں میں ختم ہوا تھا یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔ امریکا میں یہ وبا مارچ 1918 میں شروع ہو کر اس سال میں ثریا ستارہ نمودار ہونے کے باوجود گرمیوں اور سردیوں میں بھیانک تباہی مچانے کے بعد 1919 کی گرمیوں میں کچھ کم ہوا تاہم اس کے بعد کے آنے والے سالوں کے گرم موسموں میں اس کی تباہی ہولناک رہی۔
جب کہ اگر جنوبی ایشیا کی بات کی جائے تو سپینش فلو کی یہ وبا ممبئی کے ساحلوں پر پہلی جنگ عظیم کے فوجیوں کے ساتھ جون 1918 کو پہنچی اور اگلے مہینوں کے دوران برصغیر کے طول و عرض مین 18 لاکھ سے زائد افراد کو نگل گئی۔ یہ سب تب ہوا جب زمین جاوید چوہدری کے حساب کے مطابق تپ رہی ہوتی ہے اور ثریا ستارہ آسمان پر نمودار ہو چکا ہوتا ہے جس کے بعد کوئی وبائی وئراس بھی زندہ نہیں رہتا۔
کاشتکاری سے متعلق ایک حدیث کو وبا کے خاتمے کے ساتھ جوڑنا فکری بددیانتی نہیں تو کیا ہے؟ کیا حدیث کے الفاظ بالکل لفظی معنوں میں لیے جا سکتے ہیں کہ کاشتکاری کے لئے بتایا جائے کہ آفت کے دن کب ختم ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام آفات اسی تاریخ کو ختم ہو جائیں گی یا پھر یہ کہ کاشتکاری کے لئے ناسازگار ماحول اس موسم میں ختم ہو جائے گا؟ یوٹیوب ویڈیوز سے کروڑوں روپے کمانے کے لئے لوگوں کو گمراہ کرنا اور اس گمراہی کو پھیلانے کے لئے حدیثِ نبویؐ کا سہارا لے کر عوام کے دلوں میں موجود عشقِ رسولﷺ کا دنیاوی فائدے کے لئے استعمال انتہائی قابلِ مذمت عمل ہے۔