کیا حکومت کرونا پر ایک اور یو ٹرن لینے لگی ہے ؟

کیا حکومت کرونا پر ایک اور یو ٹرن لینے لگی ہے ؟
حکومت اب ایک نئے یوٹرن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پنجاب کے صوبائی وزیر برائے صنعت و تجارت میاں اسلم اقبال تاجروں کو بتا رہے ہیں کہ اگر کسی کو برا لگتا ہے تو لگے، مگر آپ نے کوئی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اچھرہ، انارکلی اور شاہ عالم مارکیٹ میں عوام کی لائنیں لگی ہوئی تھیں، جن کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ آپ خود ہی معاملات کو دوبارہ لاک ڈاؤن کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی کہ میرا کچھ نہیں جائے گا، میں تو جا کر کہہ دوں گا کہ لاک ڈاؤن دوبارہ کر دیا جائے۔

دوسری جانب منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر اسد عمر صاحب کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے اعلان کو ایسے لیا گیا ہے جیسے کرونا کے خاتمے کا اعلان کیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو حکومت کو دوبارہ لاک ڈاؤن لگانا پڑے گا۔

وفاقی و صوبائی وزرا جتنا مرضی ذمہ داری عوام اور کاروباری افراد پر ڈالنے کی کوشش کر لیں، حقیقت یہی ہے کہ یہاں ذمہ داری کسی اور کی نہیں، خود وزیر اعظم اور ان کی ٹیم ہی کی ہے۔ ان کو متعدد مرتبہ سمجھایا گیا تھا کہ لاک ڈاؤن ختم کرنے کا فیصلہ انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے لیکن انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔ عمران خان صاحب یہ جانتے بوجھتے بھی کہ ملک میں روزانہ کے حساب سے کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کے ہزار سے زیادہ کیسز سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں، تقریروں میں فرما رہے تھے کہ صورتحال قابو میں آ رہی ہے۔ خود حکومتی اعداد و شمار جو ٹرینڈ دکھا رہے ہیں، ان کے مطابق مئی کے آخر تک پاکستان میں کرونا متاثرین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کرنے کا امکان ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ لاک ڈاؤن کھلنے کے فوائد بتائے جا رہے تھے۔

عمران خان صاحب غریبوں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلاتے رہے اور امرا کے احکامات اپنے فرمانوں کے ذریعے جاری کرتے رہے۔ کنسٹرکشن انڈسٹری کو اربوں روپے کا پیکج دینے کے بعد لاک ڈاؤن بھی اشرافیہ کے پریشر میں آ کے کھولا، جو کہ اب میاں اسلم اقبال کی تقریر سے واضح ہو گیا ہے جب انہوں نے کاروباری افراد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم وہاں وفاق میں آپ کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم لاک ڈاؤن کو اشرافیہ کی جانب سے کیا گیا ایک فیصلہ بھی قرار دیتے رہے، وہ بھی صرف اس لئے کہ انہیں اس عالمی وبا کے دوران بھی سیاست سیاست کھیلنے کے سوا کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔

اب شاہ محمود قریشی صاحب فرماتے ہیں کہ عمران خان صاحب کا مطلب یہ تھا کہ امیر اور متمول طبقے نے غریبوں کے بارے میں سوچے بغیر ہی لاک ڈاؤن کر دیا۔ اس سے وہ دن یاد آ گئے جب پاکستان میں رات کے تین بجے اچانک لندن سے الطاف حسین فون پر بات کرنا شروع کر دیتے تھے اور کچھ بھی کہہ جاتے تھے جس کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار اگلا پورا دن ان کے بیان کی وضاحت میں گزارا کرتے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمران خان دن کی روشنی میں وہ باتیں کرتے ہیں جو الطاف بھائی شام ڈھلنے کے بعد کیا کرتے تھے۔

سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت کی حکمتِ عملی کیا ہے؟ پہلے تو لاک ڈاؤن کو کرفیو قرار دے کر عوام کو ڈرانے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ پھر لاک ڈاؤن کا اعلان ہو گیا تو اس کے خلاف ہر دوسرے روز قومی ٹیلی وژن پر بیٹھ کر تقاریر کی گئیں۔ پھر سمارٹ لاک ڈاؤن کے نام پر قوم سے مذاق کیا گیا اور اب لاک ڈاؤن کھول دیا گیا ہے تو عوام کے سڑکوں پر آنے پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ اسد عمر اور اسلم اقبال صاحب کیا سمجھے تھے؟ کہ جوں ہی لاک ڈاؤن کھلے گا، عوام سیدھے مزدوروں کے پاس جا کر انہیں اپنے نلکے، پریشر ککر اور چولہے ٹھیک کرنے کے لئے بلا لائیں گے؟ گھروں میں سفیدیاں شروع کر دی جائیں گی، اے سی سروس ہونا شروع ہو جائیں گے، کئی دن سے میلے کچیلے لوگ اپنے گھروں سے گٹھڑیاں باندھ کر دھوبی کی دکانوں پر پہنچیں گے، ہر طرف پیسے کی ریل پیل ہوگی اور سروسز انڈسٹری میں ایک انقلاب برپا ہو جائے گا؟ ظاہر ہے کہ لوگوں نے عید کی شاپنگ کرنے کھاڈی، لائم لائٹ، اچھرہ، انارکلی کی دکانوں پر ہی جانا تھا۔ اب وہ وہاں باہر لائنیں لگا کر کھڑے ہیں تو حیران کس بات پر ہو کر دکھا رہے ہیں؟ آپ کو اچھی طرح پتہ تھا کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ کسی مزدور کو تو آپ تک رسائی ہے نہیں۔ یہی لابیز تھیں جو آپ سے مارکیٹس کھلوانے کے لئے سفارشیں گذارشیں کر رہی تھیں۔

دراصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کسی چیز کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ لاک ڈاؤن کرنے سے معیشت پر بوجھ آیا تو عمران خان صاحب نے لاک ڈاؤن کے خلاف تقاریر شروع کر دیں۔ اب لاک ڈاؤن کھلنے سے عوام سڑکوں پر ہیں اور کرونا کے پھیلاؤ میں مزید شدت آنے کا خطرہ ہے تو پارٹی وزرا اس کی ذمہ داری عوام اور کاروباری طبقے پر ڈالنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

مشکلات تو ہر دور میں پاکستان پر آتی رہی ہیں لیکن یہ پہلی حکومت ہے جو اپنے ہی فیصلوں کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ لگتا یہی ہے کہ حکومت نے کاروباری طبقے کو خوش کرنے کے لئے عید کا سیزن لگوانے کا فیصلہ کیا ہے، اس دوران اگر کرونا کے پھیلاؤ میں تیزی آئی تو لاک ڈاؤن دوبارہ کر دیا جائے گا اور تاجروں کا دباؤ بھی سر سے اتار دیا جائے گا۔ لیکن اس دوران جن لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے، کیا وہ collateral damage سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے؟ حکومت کا کام صرف پریشر گروپس کو خوش کرنا نہیں ہوتا۔ اس کی اولین ذمہ داری عوام کے جان و مال کا تحفظ ہوتا ہے۔ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ صرف حکومت اس میں ناکام نظر آتی ہے بلکہ قوتِ فیصلہ سے بھی مکمل طور پر عاری نظر آ رہی ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.