سوشل میڈیا ببل میں گِھرا اور گِرا ایک معصوم بچہ، جو نہم جماعت کا طالب علم ہے، جو اپنے بڑوں کی نادانیوں کا شکار اور شاہکار ہے۔
بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کہتی ہیں کہ بارہ سال کی broad based تعلیم کے بغیر کسی بچے کو سپیشلائزڈ فیلڈ کی اجازت نہیں، یعنی ہمارے سسٹم میں 17 سال سے پہلے کسی بچے کو بھی کسی ایک مسلکی یا سیاسی نظریات کی دیواروں میں بند نہ کیا جائے۔ اسے تجزیہ کی تفہیم عطا کی جائے، بنیادی اخلاقی تعلیمات اور انسانی معیارات سے مزین کیا جائے۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1525100944853192710?s=20&t=dsje0Jc_vmSdCJPnAHSibw
اسی لئے بہت عرصے تک 21 سال سے کم عمر کو ووٹ کا حق حاصل نہ تھا جو بعد ازاں اٹھارہ سال کر دی گئی۔ یہ بچہ تو ابھی محض 13/14 سال کی عمر میں یوں جذباتی وابستگی کی اس سطح پر پہنچ کر خطرناک مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ انتہاء پسندی اور شدت پسندی یک رخے پن کی بنیاد پر ہی وجود میں آتی ہے۔ دنیا کی بڑی دہشت گرد تنظیموں کا ایندھن بھی یہ بچے ہی بنتے ہیں۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1524718695477821441?s=20&t=dsje0Jc_vmSdCJPnAHSibw
افریقہ اور ویتنام اور سری لنکا کے تامل ٹائیگرز بھی معصوم ذہنوں کو خاص نفسیاتی کیپسول یا سماجی ببل میں رکھ کر ان کی ایسی ذہن سازی کرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی انتہاء پسندی اور پولرائزیشن کا عمل تیزی سے پھیل رہا ہے اور سیاسی جماعتوں اور مذہبی/ مسلکی تنظیموں کے قائدین سے بھی گزارش ہے کہ بچے کو عقل بند بھی بجائے عقل مند بنائیں۔
ایسے بچوں کو مقلدین سے محققین کی طرف موڑیں۔ ان کو تجزیہ اور موازنہ سکھائیں۔ اچھے برے کی تمیز عطا کرتے ہوئے اپنے نظریات ان کی سوچ میں مت گھسیڑیں۔ سیرتِ رسول ﷺ پڑھائیں اور خود عملی نمونہ بن کر دکھائیں۔ یہ بچے ہمارے مستقبل کے معمار ہیں، ان کو سیاسی جنگ کے غلیظ ہتھیار مت بنائیں۔
سیاسی جماعتوں اور مسلکی تنظیموں سے گزارش ہے کہ وہ معصوم ذہنوں کو اپنی ہوسِ اقتدار کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ اس قوم کے مستقبل پر رحم کریں۔