میں اکثر گمان کیا کرتا تھا کہ اگر ایسا دن آیا کہ جب تحریک انصاف کے چاہنے والوں کو فوج یا خان صاحب میں سے ایک کو چننا پڑا تو وہ کسے چنیں گے؟ تقریباً ہر بار یہی اندازہ لگایا کہ جو بھی ہو وہ فوج ہی کو چنیں گے اور آج تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
لوگوں نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھنے دیا اور ضیاء الحق کو اپنا مائی باپ بنا لیا۔ تین مرتبہ نواز شریف کو ہٹایا گیا اور تینوں مرتبہ عوام نے فوج کو فوقیت دی۔ لیکن پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ عوام کا ایک وسیع پڑھا لکھا طبقہ کسی اور شخصیت کو فوج پر ترجیح دے رہا ہے۔ وہ شخصیت بھلا خان صاحب کے علاوہ کون ہو سکتی ہے۔ بس خان، خان اور خان۔
ایسا کیا ہوا کہ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ فوج کے علاوہ کوئی اور بھی ان کا مسیحا ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال کی ذمہ دار فوج خود ہے۔ سیاست ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اگر یہ ہر کسی کے بس کا کام ہوتا تو آج خان صاحب کے ساتھ ساتھ جاوید میانداد بھی ایک بہت بڑے سیاستدان ہوتے۔ لیکن نہیں! ایک سیاستدان ہونے کے لیے تین بنیادی شرائط ہیں۔ پیسہ، شہرت اور تعلقات۔ اگر ان تین چیزوں میں سے ایک بھی کم پڑ جائے تو سیاستدان کے برے دن آ جاتے ہیں جیسا کہ چودھری نثارعلی خان کے آئے ہوئے ہیں۔ خان صاحب کے پاس تھی تو صرف شہرت اور وہ بھی ایک کھیل کے میدان کی۔ باقی دونوں چیزیں تو بالکل نہیں تھیں یعنی سیاست کے لیے درکار پیسہ اور طاقتور لوگوں سے دوستی۔ یہ دونوں چیزیں یعنی پیسہ اور تعلقات اسٹیبلشمنٹ نے خود خان صاحب کو فراہم کئے۔
اس فراہمی کی ضرورت تب پیش آئی جب نواز شریف اور بی بی شہید نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور عملی طور پر یہ ارادہ کر لیا کہ ان دونوں میں سے چاہے جس کی بھی حکومت آئے دوسری پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر حکومت نہیں گرائے گی۔
میثاق جمہوریت ایک نیا آغاز بھی تھا جس میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ایک دوسرے کے خلاف کئے گئے سارے معاملات معاف کر دیے۔ یہ وہ وقت تھا جب خان صاحب کو اس پلان کے ساتھ لایا گیا کہ ان کے ذریعے نواز شریف اور زرداری کی سیاست ختم کی جائے اور خان صاحب کو اپنا بچپن کا شوق بھی پورا کرنے دیا جائے بشرطیکہ وہ ملک ان دونوں پارٹیوں سے بہتر چلائیں اور فوج کی بات بھی مانیں۔
قریباً اسی عرصہ میں جیو نیوز پر ایک پروگرام چلا جس کی میزبانی ڈاکٹر شاہد مسعود کر رہے تھے۔ اس خاص پروگرام کے تین مہمان تھے اور ان تینوں کے نام سنتے ہی آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ کوئی عام روٹین کا شو نہیں تھا بلکہ خان کی نئی سیاسی زندگی کی شروعات تھی۔
وہ تین مہمان تھے حسن نثار، ہارون رشید اور عمران خان۔ یعنی اگر یوں کہا جائے کہ حسن نثار اور ہارون رشید کی تو پہلے ہی دن سے خان صاحب کی شخصیت کو عوام کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ڈیوٹی لگا دی گئی تو شاید کچھ غلط نہ ہوگا۔
بہرحال شو کا عنوان یہ تھا کہ آخر عمران خان سیاست میں ناکام کیوں ہیں؟ کوئی شخص بھلا اپنی ہی ناکامی پر تبصرہ ہونے والے شو کا مہمان کیوں بنے گا؟ مگر ایک نئی شروعات کے لئے ان کو یہ کڑوی گولی کھانی تھی۔ ہارون رشید نے خان صاحب کی خوبیوں اور خامیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے یقین ہے کہ اگر عمران خان کو موقع دیا جائے تو وہ ملک کو صحیح ڈگر پر چلا دیں گے اور ویسے بھی خان صاحب کو نوجوان نسل کی خاصی پذیرائی حاصل ہے"۔
حسن نثار نے اپنے منفرد انداز میں تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ عمران خان اتنا ایماندار ہے کہ وہ سیاست کے لئے بنا ہی نہیں ہے۔ شو کے آخر میں خان صاحب نے کہا کہ انہوں نے اپنی غلطیوں سے بہت سیکھا ہے اور اب وہ ایک نئے قسم کے سیاستدان بن کے ابھریں گے۔ ان کے کہنے کا اصل مطلب یہ تھا کہ وہ آج سے لوٹوں کو سیاست میں لیں گے اور وزیراعظم بننے کے لئے ہر وہ کام کریں گے جو ان کو کرنا پڑے۔
دیکھتے ہی دیکھتے فضا بدل گئی۔ ایک اس وقت کی چلتی پھرتی حکومت کے وزیر خارجہ نے اپنے کئی سالوں کی پارٹی چھوڑ دی اور آتے ہی تحریک انصاف کا نائب چیئرمین لگ گیا۔ جاوید ہاشمی جو کہ ن لیگ کے قابل فخر رہنما تھا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔
جسٹس وجیہہ الدین جیسے برینڈڈ لوگ بھی یکے بعد دیگرے شامل ہونے لگے اور ماحول اس حد تک گرم ہو گیا کہ خان صاحب کو یقین تھا کہ وہ 2013ء کا الیکشن جیتیں گے اور وزیراعظم بھی بنیں گے۔
تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کی کاوشیں اپنی جگہ مگر ابھی تحریک انصاف اتنی مضبوط بھی نہ تھی کہ پنجاب میں صوبائی اور وفاقی دونوں سطحوں پر سب کو شکست دے سکتی۔ گویا ہوا یوں کہ خان صاحب جیتے تو مگر صرف اور صرف خیبر پختونخوا میں اور وزیراعظم بن گئے نواز شریف۔
چونکہ خان صاحب نے الیکشن سے بہت پہلے سے ماحول گرم کر رکھا تھا وہ حقیقت میں یہ سمجھنے لگے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور وہ اس شکست کو اور اس حقیقت کو کسی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے کہ اب اگر وہ وزیراعظم بنے بھی تو ان کو 5 سال انتظار کرنا پڑے گا۔
لہٰذا خان صاحب نے ن لیگ کے خلاف ایک شدت سے بھرپور دھاندلی کا پروپیگنڈا رچایا۔ پینتیس پنکچر، چار حلقے کھولو اور نہ جانے کیا کیا ان کے ہتھیار بنے۔ جب ان چھوٹے موٹے نعروں سے کچھ نہ بنا تو جا کے بیٹھ گئے اسلام آباد کے ڈی چوک میں اور وہاں 126 دن کا قیام کیا۔ اس سب کے دوران ان کو اسٹیبلشمنٹ کا آشیربااد حاصل تھا۔ آج جو آگ خان لگا رہا ہے اس کا ایندھن خود فوج کے چند اہلکاروں نے خان کو بھرپور تعداد میں دیا ہے۔ ناصرف یہ بلکہ اس دھرنے سے اس ملک کی مختلف اشتعال پسند تنظیموں کو راستہ مل گیا کہ اگر ان کو ریاست کی توجہ حاصل کرنی ہو تو وہ بھی اسلام آباد آ کر بیٹھ جائیں۔
اب جبکہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ فوج کے اندر ایک ایسا طبقہ ہے جو خان صاحب کو دوبارہ طاقت سونپنا چاہتا ہے تو اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے بڑی محنت کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کے ریٹائر فوجی افسروں کی ویڈیوز بنا کر جذباتی پیغامات دینے پڑ رہے ہیں کہ پاک فوج میں دو دھڑے ہونا ناممکن ہے وغیرہ وغیرہ۔
کیا ایسا کوئی طبقہ ہے جو پردوں کے پیچھے خان صاحب کی مدد کر رہا ہے جبکہ ادارہ خان صاحب کے ساتھ مزید نہ چلنے کا فیصلہ کر چکا ہے؟ اگر تو کوئی ایسا طبقہ ہے تو یہ وہی طبقہ ہے جو کئی سالوں سے خان صاحب میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اس طبقے میں صرف فوجی شامل نہیں ہیں بلکہ اس میں کئی نامی گرامی صحافی، افسر اور شاید کچھ جج بھی شامل تھے۔ آخر تحریک انصاف بڑے فخر سے اسی لیے تو کہتی ہے کہ عمران خان سپریم کوٹ سے سرٹیفائیڈ صادق اور امین ہے۔ اب اس طبقے کے لیے خان صاحب کو چھوڑنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کہ ان کو خان سے پیار بہت ہے بلکہ اس لیے خان صاحب کا خاتمہ ان حواریوں کا بھی خاتمہ ہو گا۔ ان لوگوں نے اپنی پوری پوری زندگی خان صاحب کو دی ہے اور اس شدت سے کہ ان کے لیے اب ممکن نہیں رہا کہ ایک کمپنی چھوڑ کے دوسری میں چلے جائیں۔
کیا علی محمد خان کل کو درود شریف پڑھ کے زرداری صاحب کا دفاع کرتے ہوئے اچھا لگے گا؟ کیا زرتاج گل ن لیگ میں شامل ہو کر مریم نواز کے حق میں نعرہ لگاتے ہوئے اچھی لگے گی؟ کیا حسن نثار، ہارون رشید اور عمران ریاض کا سارے کا سارا کیرئیر ہی ختم نہ ہو جائے گا کہ جن کی ساری ساری صحافت چل ہی اسی فارمولے پر رہی ہے کہ وہ خان صاحب کو اپنی لغوی صلاحیت استعمال کرکے ایک مسیحا کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ آخر یہ لوگ جائیں تو کہاں جائیں؟
اقتدار ایک ایسی پرکشش کیفیت ہے کہ جب تک ملا نہ ہو تو آدمی مرتے دم تک اس کی خواہش میں اپنی باقی ساری خواہشات قربان کر دیتا ہے۔ اور اگر اقتدار مل جائے تو آدمی اس کو اپنی آخری سانس تک اسی طرح لینا چاہتا ہے کہ جیسے سانس۔ یہ بھی ایک عجب حقیقت ہے کہ مقتدر اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا کہ اگر وہ بھوکا ہے تو صرف اور صرف اقتدار کا۔ مقتدر عموماً یہی کہتا ہے کہ وہ تو طاقت کا خواہشمند ہے ہی نہیں۔ وہ تو یہ سب ملک کے لیے کر رہا ہے۔ اس کے پاس تو کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ وہ چاہتا تو ایک لطف اور فرصت کی زندگی گزار سکتا تھا لیکن اس نے یہ سب کچھ آپ کے لیے قربان کر دیا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ درحقیقت ان سب میں ایک بھی مسیحا نہیں ہے بلکہ سب کے سب اپنی ساکھ بچانے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔
اب جبکہ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو اس ملک کی بقا کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ فوج اپنے آپ کو سیاست سے ہمیشہ کے لیے دستبردار کر دے اور یہ ہم پر چھوڑ دے کہ ہم کس کو اپنا مسیحا بنانا چاہتے ہیں۔ ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ حقیقت میں اس سرزمین کا مخلص اور قابل رہنما عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر آپ حسن نثار اور ہارون رشید جیسے رفقا کے ذمے لگائیں گے کہ وہ ہمارے ذہنوں کے ساتھ کھیل کر اور عجیب عجیب قسم کی تاویلیں دے کر ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ بس 22 کروڑ میں صرف ایک ایماندار آدمی ہے تو یہی ہوگا جو ہوا۔ وہی آدمی آ کر ایک دن آپ کو جانور کہے گا۔