مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ 12 اکتوبر 1999 جیسے تجربات سے سبق سیکھ کر ہی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ اس چارٹر پر عمل درآمد ہوا تو اس کے اثرات بھی نظر آئے۔ اسی کے باعث پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال پورے کیے اور جب (ن) لیگ کے دور میں عمران خان نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا تو پارلیمنٹ میں موجود سب سیاسی جماعتوں نے مل کر اس حملے کو ناکام بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ سویلین بالادستی کا مقصد تب ہی حاصل ہوگا جب سب سیاسی جماعتیں اس نکتے پر متحد ہو جائیں کہ فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی پر تمام سیاسی جماعتیں دستخط کریں۔ اس کی جن شقوں پر اب تک عمل نہیں ہو سکا ان پر عمل کرنے پر متفق ہوں۔ اس میں کسی ترمیم کی ضرورت ہے تو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر یہ تبدیلی کی جائے۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے پرویز رشید کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو پھر سے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک جانب دو بڑی سیاسی جماعتوں کا زور توڑنے کے لیے عمران خان کو کھڑا کیا گیا ہے اور حال ہی میں جنرل ظہیرالاسلام نے اس بات کا اپنے منہ سے اعتراف بھی کیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب عدلیہ کی جانب سے ایسے فیصلے کیے گئے ہیں اور ایسی تشریحات کی گئی ہیں جیسے آئین کو دوبارہ لکھا جا رہا ہے۔ آئین میں ترمیم کرنا یا اسے دوبارہ لکھنا پارلیمنٹ کا کام ہے مگر یہ کام پارلیمںٹ کی جانب سے نہیں ہو رہا بلکہ عدلیہ یہ سب کر رہی ہے۔
سویلین بالادستی سے متعلق معروف صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس وقت سبھی سیاسی جماعتیں فوج کی سیاست میں مداخلت کی مخالفت کر رہی ہیں مگر ایک بھی سیاسی جماعت یہ نہیں کہ رہی کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا احتساب کیا جانا چاہئیے۔ سبھی سیاسی جماعتیں فوجی مداخلت کی مخالفت کر رہی ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس طرح کی باتیں تحریر کر کے ان پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر لیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ 'ووٹ کو عزت دو' کا نعرہ بھی ایک خاص وقت کے لیے لگایا گیا اور پھر یہ نعرہ بھی سیاسی مصلحت کا شکار ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2023 کے الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو سویلین بالادستی کا ایجنڈا سرفہرست رکھ کر عوام کے پاس جانا چاہئیے۔ سویلین بالادستی کا ایجنڈا محض نعرے کی حد تک نہیں ہونا چاہئیے بلکہ سیاسی جماعتوں کے پاس پورا منصوبہ ہونا چاہئیے کہ سویلین بالادستی کا حصول کس طرح ممکن بنایا جائے گا۔
'خبر سے آگے' میں اظہار خیال کرتے ہوئے مطیع اللہ جان نے کہا کہ ہمارے سیاسی ماحول کی ابتری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یونیورسٹیوں میں تحریر، تقریر اور سیاست پر پابندی ہے۔ موجودہ نوجوان نسل جو عمران خان کے پیچھے لگی ہوئی ہے اسی غیر سیاسی ماحول میں پروان چڑھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نسل کو سیاسی رہنما نہیں چاہئیے بلکہ ہیرو چاہئیے جو چاہے فلم انڈسٹری سے آئے یا کرکٹ سے آئے۔ انہوں نے کہا کہ 12 اکتوبر جیسا دن ہمارے لیے اپنے گریبان میں جھانکنے کا دن ہونا چاہئیے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ کسی نے اپنے کیے پر قوم سے معافی نہیں مانگی اور اسی وجہ سے بار بار ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔
بدھ کی رات کو پیش کیے جانے والے پروگرام میں دونوں مہمانوں نے 12 اکتوبر 1999 کے واقعات پر تفصیل سے گفتگو کی۔ جس وقت پرویز مشرف کی ہدایت پر پاکستانی فوج نے بندوقیں دکھا کر پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا اس وقت پرویز رشید چیئرمین پی ٹی وی تھے اور مطیع اللہ جان پی ٹی وی کے لیے رپورٹنگ کرتے تھے۔ سب مشین گن سے لیس پاکستان آرمی کے میجر نثار جب پی ٹی وی کے کنٹرول روم میں پہنچے تو پرویز رشید اور مطیع اللہ جان اس کے بعد کے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ یہ سارے واقعات انہوں نے تفصیل سے سنائے ہیں اور جو ہمارے یوٹیوب لنک سے سنے جا سکتے ہیں۔
پروگرام کے میزبان مرتضیٰ سولنگی تھی۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی رات کو 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔