ڈرامہ خئی شروع ہوتے ہی دکھایا جاتا ہے کہ ایک خاندان برسوں بعد اپنے آبائی علاقے کو لوٹتا ہے۔ درویش خان، اس کی بیوی اور تین جوان بچے، جن میں دو لڑکے اور ایک لڑکی 'زمدہ' ہوتی ہے۔ ڈرامے کے کچھ اگلے مناظر دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ سالوں پہلے جب درویش کے والد کو ایک دوسرے خاندان کے بندے دراب خان نے قتل کر دیا تھا، تب یہ خاندان انتقام لینے کے بجائے علاقہ چھوڑ کر وہاں سے ہمیشہ کیلئے چلا گیا تھا۔ درویش اب سالوں بعد اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر اس ارادے سے لوٹ رہا تھا کہ وہ باپ کے قتل کا انتقام لینے کے بجائے دراب خان سے صلح کر کے اسے معاف کر دے گا۔ درویش کے آنے کی خبر سن کر دراب خان کے دل میں ڈر بیٹھ جاتا ہے کہ شاید درویش سالوں بعد انتقام لینے آیا ہے اور جب درویش ان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو ان کے دل میں شک اور ڈر اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ درویش ہمارے خاندان کو خئ کرنا چاہتا ہے۔ خئی ایک پرانا پشتون رواج ہے جس میں ایک فریق اپنے دشمن کے خاندان کے سارے مردوں کو مار دیتا ہے کہ انتقام کا خطرہ ہی باقی نہ رہے۔
دراب خان کے تین بیٹے ہیں۔ ان میں سب سے بہادر اور باپ کا قریبی چنار خان ہوتا ہے جس کا دل درویش کی پڑھی لکھی بیٹی زمدہ پہ آ جاتا ہے جبکہ چنار خان کی پہلے سے دو بیویاں ہوتی ہیں۔ دراب خان بیٹے کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے درویش سے کہتا ہے کہ وہ صلح کیلئے تیار ہے، لیکن اس شرط پر کہ وہ اپنی بیٹی زمدہ کا ہاتھ انہیں چنار خان کیلئے دے دے۔ یہ سن کر درویش تو جیسے ہل جاتا ہے۔ دراب، درویش کو سوچنے کی مہلت دے کر چلا جاتا ہے۔ ادھر درویش جلدی میں اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھانجے بادل خان سے طے کر دیتا ہے۔ زمدہ اور بادل ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں۔ مگر عین شادی کے دن دراب خان، اس کا بیٹا چنار اور ان کے آدمی شادی کے گھر پر حملہ کر کے درویش اور اس کے دونوں بیٹوں کو مار دیتے ہیں۔ زمدہ کو زبردستی لے جا کر نکاح کرا کے چنار کو سونپ دیتے ہیں۔ درویش کی بیوی اکیلی رہ کر پاگل ہو جاتی ہے۔
اس کے بعد شروع ہوتا ہے اصل ڈرامہ کہ زمدہ اپنے خاندان کے خئی ہو جانے کے بعد کیسے اپنے دشمن اور خئی کی رسم سے انتقام لیتی ہے۔
جیو انٹرٹینمنٹ کے اس ڈرامے کے ڈائریکٹر سید وجاہت حسین ہیں، اسے تحریر کیا ہے ثقلین عباس نے اور یہ پیش کش ہے سیونتھ سکائی انٹرٹینمنٹ کی۔ اس ڈرامے کی کل 29 اقساط ہیں۔
ڈرامے کا موضوع کافی نیا ہے اور پھر رائٹر کی کہانی کی بنت بھی کافی اچھی ہے۔ آخری قسط تک سسپنس اور تجسس برقرار رہتا ہے۔ ایسے ایسے ٹوئسٹ آتے ہیں کہ دیکھنے والا چاہ کر بھی فارورڈ بٹن کا استعمال نہیں کر سکتا۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اس ڈرامے میں تمام اداکاروں نے اداکاری کے ریکارڈ توڑے ہیں۔ فیصل قریشی نے اس سے پہلے کبھی بھی اپنے کام سے مجھے کوئی خاص متاثر نہیں کیا تھا لیکن اس ڈرامے میں فیصل قریشی اور خالد بٹ کی اداکاری لاجواب ہے۔ ولن، ہیرو اور ہیروئن پر بھاری پڑتے نظر آتے ہیں۔ خالد بٹ اس ڈرامے سے حاصل ہونے والی شہرت نہ دیکھ سکے کیونکہ وہ اس دوران ہی دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ اللّٰہ ان کی مغفرت فرمائے۔ اس کے علاوہ ایک نیا اداکار جس نے برلاس کا کردار نبھایا ہے، اس میں آپ کو ہالی ووڈ کے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ ڈرامے کی ہیروئن درفشاں نے قدرے مختلف مگر مشکل کردار اچھے طریقے سے نبھایا ہے۔ تمام سپورٹنگ ایکٹرز نے بھی بہترین کام کیا ہے۔ ہمارے پشاور سے تعلق رکھنے والے نیک خان نے گل خان کا کردار انتہائی خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔
پشتو ڈراموں کی مشہور اداکارہ نوشابہ کو لیڈنگ کریکٹر بادل خان کی ماں کے طور پر دکھایا گیا ہے لیکن ان کو ڈرامے میں مناسب سکرین ٹائم نہیں دیا گیا۔
ڈرامے کی ڈائریکشن بہترین ہے، کیمرہ ورک اور ایڈیٹنگ بھی زبردست ہے۔ اس کا بیک گراؤنڈ سکور اور ٹائٹل سونگ بار بار سننے کے قابل ہیں۔ ڈرامے کی لوکیشن جو شاید گلگت کا کوئی علاقہ ہے، بھی کمال خوبصورت ہے۔
ڈرامے میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو مزید بہتر کی جا سکتی تھیں، جیسے کہ ڈرامے میں اختیار کیا گیا پشتو لہجہ۔ مجھے محسوس ہوا کہ پشتون لہجے میں اردو بولنے پر کوئی خاص مشق نہیں کی گئی۔ ایک ہی گھر کے چار لوگ، مرد و خواتین مختلف لہجوں میں بات کرتے نظر آئے۔ اور بہت سی جگہوں پر پشتو زبان کے جملوں اور الفاظ کا بلا ضرورت غیر مناسب استعمال کیا گیا ہے۔
پشتو زبان کا ایک لفظ ہے 'مڑا'۔ بہت سارے غیر پشتون لوگوں کو لگتا ہے کہ شاید مڑا پشتو کا کوئی ایسا چیمپئن لفظ ہے کہ جہاں چاہو جڑ دو، یا یہ کہ اسے بول دینے سے آپ کی پشتو کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ دراصل مہذب اور فارمل پشتو لہجے میں اس لفظ کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن اس ڈرامے میں چنار خان ( فیصل قریشی) اور کئی دوسرے کرداروں نے لفظ 'مڑا' کا ایسے بے جا اور غلط استعمال کیا ہے کہ خود پشتو بولنے والوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں۔
دوسری طرف پشتون خود، ان کے خوانین اور نواب سب حجروں میں بیٹھتے ہیں۔ حجرہ پشتون کلچر کا ایک اہم جزو ہے، لیکن ڈرامے میں حجرے کے بجائے گھر میں موجود لان میں ایک بڑا سا تمبو لگا کر حجرہ یا مردوں کے بیٹھنے کی جگہ دکھائی گئی ہے جہاں وہ ناصرف مہمانوں سے ملتے ہیں بلکہ جرگے بھی کرتے ہیں۔ اور تمبو بھی ایسا ہے جس سے ماحول پشتونوں کا نہیں بلکہ عربوں کا لگتا ہے۔
تیسری چیز کہ پشتون جرگہ جب بھی ہوتا ہے تو فریقین میں سے اگر خود ایک جرگے کے مشران (بڑوں) میں سے ہو، تو کوئی تیسرا مشر (بڑا) جرگے کو لیڈ کرتا ہے۔ یہاں دراب خان خود فریق بھی ہے، جرگے کا لیڈر بھی اور جج بھی۔
چوتھی چیز، ڈرامے میں موبائل فون اور تمام دیگر ٹیکنالوجی کا استعمال دکھایا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ پشتونوں کی جدید دور کی کہانی ہے، لیکن اتنی قتل و غارت ہونے کے باوجود بھی کہیں پولیس نظر آتی ہے، کوئی عدالت اور نا ہی کوئی قانون جو کہ حقیقت کے بالکل برعکس عکاسی ہے۔
مجموعی طور پر اگر انٹرٹینمنٹ ویلیو کو مدنظر رکھا جائے تو یہ کافی اچھا ڈرامہ ہے، اس کی ریٹنگ بھی کافی ہائی رہی، یہ ڈرامہ دیکھتے ہوئے آپ کو بنانے والی ٹیم کی محنت نظر آتی ہے۔