ایک ماہ کا جذبہ

ایک ماہ کا جذبہ
جیسے ہی اگست کا سورج طلوع ہوتا ہے پاکستان کی فضا معطر ہونے لگتی ہے۔ اس سال بھی کچھ یونہی محسوس ہو رہا تھا۔ آزادی کے 71 سال مکمل ہوئے۔ اب آزادی کا جشن ایک تہوار بن چکا ہے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی رونق میں مزید نکھار آتا جا رہا ہے۔ عموماً 14 اگست کی صبح کا آغاز اکیس توپوں کی سلامی سے ہوتا ہے، ہر ایک گھر میں اور ہر ایک گلی کوچے میں ملی نغموں کی گونج اس بات کی نوید ہوتی ہے کہ آزادی کے دن کا جشن شروع ہو چکا ہے۔ عمارتوں کو رنگ برنگی روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔ کوئی اپنی گاڑی پہ قومی پرچم لہراتا ہے تو کوئی اس پرچم کو اپنی سائیکل کی زینت بناتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں اور پرچم کشائی سے اپنے وطن سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے آزادی کے جشن کو مزید تقویت ملتی ہے۔ لوگ تاریخی مقامات کی سیر کرتے ہیں جن مقامات کا آزادی میں اہم کردار رہا۔ جگہ جگہ آتشبازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ گویا ملک کے ہر ایک کونے میں جشن کی گہما گہمی نظر آتی ہے۔

یہ جوش و جذبہ محض جشن کے لئے ہی کیوں؟

مگر پھر ایک سوال بنتا ہے کہ یہ جوش و جذبہ محض جشن کے لئے ہی کیوں؟ یہ لگن اور جذبہ 71 سال گزرنے کے باوجود بھی ان مقاصد کے حصول میں نظر نہیں آتا جن کی بنیاد اس ملک کی عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔ اب معیشت، معاشرت اور سیاست کو زنگ آلود ہاتھوں سے ان ہاتھوں میں تھمانا ہے جو ایمان، اتحاد اور تنظیم کے داعی ہیں۔ ہمارے دیہی علاقوں میں جب فصل کاشت کی جاتی ہے تو میلہ منعقد کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کی سرزمین شہیدوں کے لہو کی بدولت زرخیز ہیں مگر ہم اسے کاشت کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کے باوجود ہم جشن نہایت پرتکلف انداز میں منا رہے ہیں جو اس لہو سے ناانصافی ہے۔

ہم سوچ کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جا چکے ہیں

ہم ظاہری غلامی کی رسی سے چھٹکارہ حاصل کر کے سوچ کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جا چکے ہیں۔ ایک پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں مگر اس پرچم تلے اب بہت سے پرچم نظر آتے ہیں اور یہ مذہب اور علاقایئت کے نمائندہ ہیں۔ ابھی ہم نے اپنی "خودی" کو اتنا بلند نہیں کیا کہ خدا ہماری رضا ہم سے خود پوچھے۔ ابھی معاشرے کی صفوں کو سیدھا کرنا باقی ہے۔ ہمارے ہاں تماشہ بےتحاشہ دیکھا جاتا ہے۔ کرپشن ایک ذہنی کینسر بن چکا ہے جو معاشرے کو مفلوج کرتا جا رہا ہے۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ یہ وطن تاقیامت قائم رہے گا کیونکہ یہ اسلام کے نام پر بنا ہے مگر شاید ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک اسلامی فلاحی ریاست میں تین کروڑ بچے بھوکے نہیں سوتے، اس ریاست میں غریب کا استحصال نہیں ہوتا، حقوق اور فرائض میں ناانصافی نہیں ہوتی۔ ایسی ریاست میں عورت خود کو محفوظ سمجھتی ہے اور درندے اس سے دور رہتے ہیں۔ ایسی ریاست اصولوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن ابھی ہم اس نہج پر نہیں پہنچے۔

محض نعروں اور دعؤوں سے ترقی کا تصور ممکن نہیں

ابھی معیشت کا پہیہ اس رفتار سے نہیں چل رہا جس کی ضرورت تھی۔ کرنسی ابھی لڑکھڑاتی نظر آتی ہے۔ قرضے تلے دبی معیشت میں سرمایہ کاری کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر نہایت کم سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ دہشتگردی جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ پھر سیاست ہے جو برائے نام جمہوریت کے دہانے پر ہے۔ بیوروکریسی کو ایک پنجرے میں رکھ کر اختیار دیا جاتا ہے اور سیاست کو ایک دھندا سمجھا جاتا ہے جو ایک مخصوص لوگوں کی جماعت ہی چلا رہی ہے۔ انہی وجوہات کے پیش نظر ان تینوں ستونوں میں اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ ایک دوسرے سے جدا ہوتی نظر آتی ہیں اور عمارت کو لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جو جذبہ صرف اگست تک محدود ہے وہ باقی گیارہ ماہ میں بھی نظر آنا چاہیے۔ محض نعروں اور دعؤوں سے ترقی کا تصور ممکن نہیں۔ شہیدوں کا لہو تبھی رنگ لائے گا جب دھرتی کے لئے خون پسینہ بہایا جائے گا۔