ماہ اگست پاکستان کی آزادی کا مہینہ ہے جو کہ زوروشور سے رواں دواں ہے۔ اس مہینے کی 14 تاریخ کو انگریز سامراج کے تسلط سے مسلمانوں کی اکثریت کے لئے ایک نیا ملک معرض وجود میں آیا جس کی بنیاد دو قومی نظریہ تھی مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟
ہم ہر سال جوش وخروش سے 14 اگست کی تقریبات مناتے ہیں، آزادی کے نعرے لگاتے ہیں اور ترانے گاتے ہیں جو کہ یقیناً خوش آئند بات ہے مگر کیا اسی کو آزادی کہتے ہیں؟ اگر آزادی اپنی مرضی سے نقل و حرکت کرنے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور سال میں ایک دن نعرے لگاتے ہوئے ملی نغمے سننے کا نام ہے تو ہاں ہم واقعی آزاد ہیں۔
اگر آزادی بابائے قوم اور شاعر مشرق کے مزاروں پر جا کر باجے بجانے یا نعرے لگانے کا نام ہے تو ہاں ہم واقعی آزاد ہیں۔اگر آزادی سیاسی بدتہذیبی اور گالم گلوچ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا نام ہے تو ہاں ہم واقعی آزاد ہیں۔ اگر آزادی اپنے سے کمزور کا حق کھا کر ڈکار مارنے کا نام ہے تو ہاں ہم واقعی آزاد ہیں۔
غرض مندرجہ بالا باتوں سے اگر آزاد قوم کا تصور ذہن میں آتا ہے تو ہم سے زیادہ آزاد اور خوشحال قوم شاید ہی کوئی ہو، روئے زمین پر ہو۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے جسموں کی آزادی کو ہی حقیقی آزادی تصور کر لیا ہے جبکہ ذہنی طور پر ہم ابھی بھی غلام ہیں، پہلے گورے کے غلام تھے اور اب اپنے جیسوں کی ہی غلامی کرتے ہیں۔
ارض پاک میں آج بھی ظلم و جبر کا دور دورہ ہے، کرپشن کے مجرم سرعام دندناتے پھرتے ہیں اور جس کو جب بھی جہاں بھی موقع ملتا ہے کرپشن اور رشوت خوری کا بازار سرگرم کرنے سے نہیں چوکتا۔
ملک میں غربت کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے اور سیاست دان عوام پر توجہ دینے کی بجائے اپنی سرکس اور شعبدہ بازیوں میں مصروف ہیں۔ انتہا پسندی اور معاشرتی عدم برداشت اپنے عروج پر ہے، کوئی بھی کسی دوسرے سے دلیل سے بات کرنے کو تیار ہی نہیں اور دلیل کی بجائے گالی اور گولی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ پاکستانی روپے اور پاسپورٹ کی قدر دن بدن کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔
ہم اپنے ضمیروں کا سودا ووٹ بیچ کے کر رہے ہیں۔ غریب انصاف کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے جب کہ طاقتور اور پیسے والے کے لئے عدالتیں رات کے 12 بجے بھی کھل سکتی ہیں۔ پڑھے لکھے افراد کوئی چھوٹا موٹا کام کرنا نہیں چاہتے کیوں کہ معاشرے کے طنز سے ڈرتے ہیں اور اپنی پڑھائی کے مطابق نوکری مل نہیں رہی اس لئے وہ ڈگریاں لینے کے بعد جرائم کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں۔
جہاں تک میرا خیال ہے آزادی کے یہ ثمرات تو نہیں ہوتے، قائداعظم نے الگ ملک اس لئے تو نہیں لے کر دیا تھا جہاں اپنے ہی اپنوں کو نوچ رہے ہوں، جہاں بھائی ہی بھائی کا حق کھا رہا ہو، جہاں اوپر سے لے کر نیچے تک اکثریت کرپشن اور رشوت خوری جیسی حرام خوری کا شکار ہو۔
ہم نے جسمانی طور پر تو غیر ملکی آقاؤں سے آزادی حاصل کر لی ہے مگر ذہنی طور پر ابھی بھی ان کے غلام ہیں اور ابھی بھی انہیں دیکھ کر ہماری اکثریت احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ ہم اپنے ملک کو سنوارنے کی بجائے اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں اور ہر ایک یہی سمجھتا ہے کہ ملک کو سنوارنا میرا نہیں بلکہ دوسرے کا فرض ہے جب کہ میرا کام تو ملک کو لوٹنا ہے جہاں تک اور جب تک ممکن ہو۔
ذہن میں یہی سوال بار بار گونجتا ہے، آخر کیا ہم عملی طور پر آزاد کیسے ہو سکتے ہیں؟
میری رائے میں ہمیں حقیقی آزادی کے لئے جاہلیت کا خاتمہ کرتے ہوئے غلامی کا طوق گلے سے اتارنا ہو گا۔ ہمیں احساس کمتری کے حصار سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے ضمیر کی آواز پر اس جماعت یا شخص کو ووٹ دینا ہو گا جو ملک پاکستان اور اس کی عوام کے ساتھ مخلص ہو اور جس کے ہاتھ بے ایمانی اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث نہ ہوں۔
ہمارے اداروں کو بھی کرپشن فری ہو کر چلنا ہو گا اور انصاف کا دور دورہ قائم کرنا ہو گا۔ ہمیں سب کو ان کے حقوق دینے ہوں گے۔ صرف اسی صورت میں ہم حقیقی طور پر آزادی کے حق دار کہلا سکتے ہیں ورنہ ہم طوق غلامی نسل در نسل منتقل کرتے چلے جائیں گے۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔