Get Alerts

'جب سکیورٹی ادارے سیاست کرتے ہیں تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے، جو اے پی ایس پشاور میں ہوا'

'جب سکیورٹی ادارے سیاست کرتے ہیں تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے، جو اے پی ایس پشاور میں ہوا'
یہ ایک سادہ سا سوال تھا لیکن وزیراعظم عمران خان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

بدھ کی دوپہر سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس قاضی امین نے عمران خان کو مخاطب کر کے پوچھا تھا، ''مسٹر پرائم منسٹر! آپ مجرمان کو مذاکرات کے لیے ٹیبل پر لے آئے، کیا ایک بار پھر سرنڈر ڈاکومنٹ پر دستخط کرنے جا رہے ہیں؟‘‘

وزیر اعظم اتنے بھولے نہیں کہ جج صاحب کیا پوچھ رہے تھے؟ جج صاحب کا اشارہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی طرف تھا اور وہ یہ پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ کالعدم ٹی ٹی پی کے سامنے ویسا ہی سرنڈر کرنے والے ہیں، جو آج سے پچاس سال پہلے پاکستان فوج نے ڈھاکا میں بھارتی فوج کے سامنے کیا تھا؟

بھارتی فوج کے سامنے سرنڈر کرنے اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرت کا آپس میں کیا تعلق بنتا ہے؟ دراصل جج صاحب نے عمران خان کو یاد دلایا کہ بھارتی فوج کے سامنے سرنڈر بھی 16 دسمبر کے دن کیا گیا تھا اور پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کالعدم ٹی ٹی پی کا حملہ بھی 16 دسمبر کے دن ہوا تھا۔

جج صاحب کا سوال دراصل عام پاکستانیوں کے دل کی آواز تھا، جن کو بتایا جاتا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو بھارت کی حمایت حاصل ہے اور ٹی ٹی پی نے ہمارے بچوں کو ایک بھارتی سازش کے تحت شہید کیا اور اس لیے ایک اسکول پر حملے کے لیے 16 دسمبر کا انتخاب کیا گیا۔

اب یہی عام پاکستانی ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ اب تو افغانستان پر طالبان کی حکومت ہے، ہمیں بتایا گیا تھا کہ طالبان کی حکومت قائم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ ختم ہو گیا لیکن اب افغان طالبان ٹی ٹی پی کی مدد کیوں کر رہے ہیں؟

اگر کالعدم ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی مدد حاصل ہے تو پھر ماضی میں پاکستانیوں کو یہ کیوں بتایا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی دراصل بھارت کی پراکسی ہے؟ عمران خان بھارت کی پراکسی وار کا حصہ بننے والوں کے ساتھ تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن اپنی سیاسی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار کیوں نہیں؟

ایک مفروضہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے عمران خان کو طلب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہواؤں کا رخ بدلنے والا ہے۔ ہمیں سازشی مفروضوں میں الجھانے کی بجائے صرف یہ پہلو سامنے رکھنا چاہیے کہ سانحہ اے پی سی 2014ء میں رونما ہوا۔ اس سانحے کی انکوائری رپورٹ 2019ء میں سامنے آئی اور 20 اکتوبر 2021ء کو سپریم کورٹ نے اس معاملے پر سماعت کے بعد اپنے آرڈر میں کہا کہ شہداء کے لواحقین کے مطالبے کی روشنی میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف، سابق ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الاسلام، سابق کور کمانڈر پشاور ہدایت الرحمان، پرویز خٹک اور سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے خلاف کارروائی کر کے 10 نومبر کو رپورٹ پیش کی جائے۔

دس نومبر کی صبح کوئی رپورٹ عدالت میں پیش نہ ہوئی تو عدالت نے وزیر اعظم کو طلب کر لیا۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا۔ ماضی میں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی بطور وزیراعظم سپریم کورٹ میں پیش ہو چکے ہیں۔

عدالت نے عمران خان کو چار ہفتے کا وقت دیا ہے اور اگلی سماعت پر عمران خان کے دستخط سے رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔

سماعت کے دوران معزز جج صاحبان کے ریمارکس سے یہ واضح ہو گیا کہ حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات پر ان کے تحفظات ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید نے ٹی ٹی پی اور تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر بریفنگ دی تھی۔

اس بریفنگ کو خفیہ رکھا گیا لیکن اس بریفنگ میں دو بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سمیت حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم نے بھی ان مذاکرات کی حمایت سے انکار کر دیا تھا۔ وجہ شاید یہ تھی کہ ماضی میں جب کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی کوشش ہوتی تھی تو مذاکرات کرنے والوں کو دہشت گردوں کا حامی قرار دے دیا جاتا تھا۔

جنرل راحیل شریف نے نواز شریف حکومت کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے  لیے بنائی جانے والی ایک کمیٹی کے ساتھ کوئی تعاون نہ کیا اور قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب کا اعلان کر دیا۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے اسی آپریشن ضرب عضب کا انتقام معصوم بچوں پر بزدلانہ حملے کے ذریعے لیا۔ سانحہ اے پی ایس کے وقت نواز شریف کی حکومت کو ایک طرف عمران خان کے دھرنے کا سامنا تھا اور دوسری طرف جنرل راحیل شریف اور ظہیر الاسلام کی سرگرمیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہ تھیں۔ سکیورٹی ادارے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث تھے اور جب سکیورٹی ادارے سیاست کرتے ہیں تو پھر وہ کچھ ہوتا ہے، جو اے پی ایس پشاور میں ہوا۔

اس سانحے کے وقت مرکز میں نواز شریف لیکن خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ اس سانحے کے بعد سب سیاسی جماعتوں نے فوجی عدالتیں بنانے کی حمایت کی اور پھر اس زمانے میں کچھ گانے ریلیز کیے گئے۔ ایک گانا سب ٹی وی چینلز پر بار بار چلوایا گیا،''بڑا دشمن بنا پھرتا ہے، جو بچوں سے لڑتا ہے‘‘۔ یہ دشمن کون تھا؟ ریاستی اداروں نے اس گانے کے ذریعے پاکستانی قوم کو یہ بتایا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور پاکستان کا سب سے بڑا دشمن بھارت ایک ہی ہیں۔ لیکن چند دن پہلے پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا کہ ٹی ٹی پی والے بھی تو اس دھرتی کے بیٹے ہیں، ہمیں انہیں قومی دھارے میں لانے دیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور ٹی ایل پی کو آپ اس دھرتی کے بیٹے تسلیم کر لیتے ہیں کیونکہ وہ بندوق کا راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کو آپ معاف کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اس نے اپنی ایک تقریر میں فوج کے سیاسی کردار پر تنقید کی تھی۔ آپ آج تک ان بلوچوں کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں، جو پُر امن طریقے سے اپنے حقوق مانگتے ہیں۔ پاکستان میں ہزاروں افراد کو ملک دشمن قرار دے کر لاپتہ کر دیا جاتا ہے، صحافیوں کو ان کے گھروں میں گھس کر مارا جاتا ہے کیونکہ وہ بندوق نہیں قلم چلاتے ہیں۔

جو بندوق کی زبان میں بات کرے، اس کے ساتھ مذاکرات اور امن معاہدے قومی مفاد کا تقاضہ بن جاتے ہیں لیکن جو پُر امن طریقے سے اختلاف رائے کرے، اس کے ساتھ آپ طاقت کی زبان میں بات کرتے ہیں۔

آپ ٹی ٹی پی اور ٹی ایل پی سے  پہلےکئی معاہدے کر چکے ہیں، مزید معاہدے کر لیں لیکن کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ بڑا دشمن بنا پھرتا ہے، جو صرف نہتے لوگوں سے لڑتا ہے اور بندوق والوں سے ڈرتا ہے۔




یہ تحریر جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو اردو میں شائع ہوئی، اس کو پڑھنے کیلئے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔