خان صاحب کی تقریر نے یہ کمال تو کیا کہ ایک سال سے جو ان پہ اور ان کی ٹیم پہ مسلسل تنقید ہو رہی تھی اس میں اچانک سے ایک ٹھہراؤ آیا۔ گر کس کو خبر تھی کہ یہ ٹھہراؤ طوفان سے پہلے آنے والی خاموشی ہے جس کے ٹوٹنے کا عمل ایک بار پھر تحریک انصاف کے اپنے رکن کی زبان پھسلنے سے شروع ہو چکا ہے۔
شوکت یوسفزئی نے جس غرور سے یہ کہا کہ یہ ڈاکٹر تو کل تک سموسے اور پکوڑے بیچتے تھے، ان کو تو تحریک انصاف کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کو ان کے دور میں بھرتی کیا گیا، اور ہر بیان کی طرح اس مرتبہ بھی زبان پھسلنے والے نے یہ بہانہ کیا کہ اس کے کہنے کا وہ مطلب نہیں تھا جو لیا گیا۔
یہی بات علامہ طاہر القادری بھی کرتے تھے جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ توہینِ رسالت کے موضوع پر ان کے ویسٹ اور ایسٹ میں متضاد بیانات کیوں ہیں۔ وہ بھی اسرار کرتے تھے کہ ان کی بات کو سیاق و سباق سے الگ لیا گیا۔
دوسروں کے لئے بد ترین جج اور اپنے لئے بہترین وکیل بننا کوئی تحریک انصاف سے سیکھے۔ کچھ ایسا غضب ڈھایا ہے اس عوام پہ کہ حکومت کی نااہلی اور غیر کاروباری طرز حکومت نے ہر پیسے والے شخص کا دل تجارت سے کالا کر دیا ہے اور اب حالات یہاں تک آ گئے ہیں کہ ان نالاں تاجروں کے ایک وفد نے آرمی چیف کو وزیراعظم پاکستان کے خلاف چغلی لگا ڈالی۔
یہاں تک بات پہنچنے کی بنیادی وجوہات دو ہیں۔ ایک یہ کہ جب روپے کی قیمت گرائی گئی اور بار بار یہ کہا گیا کہ بیڑہ غرق ہو چکا ہے تو نہ صرف اندرونِ ملک لوگ خوفزدہ ہو گئے بلکہ باہر سے آنے والے انویسٹر بھی رک گئے۔ تحریک انصاف یہ بھول گئی کہ نواز شریف اور زرداری کو گندہ کرنے کے چکر میں جو زہر وہ اگل رہے ہیں اس کا سب سے زیادہ نقصان خود تحریک انصاف کو ہو گا۔ انویسٹر یہ نہیں سننا چاہتا کہ حالات خراب ہیں۔ انوسٹر تو یہ سننا چاہتا ہے کہ اس سے اچھے حالات تو ہو ہی نہیں سکتے، بے شک حقیقت میں حالات جیسے بھی ہوں۔
اس عمل میں مزید خوف نیب گردی کی وجہ سے آیا۔ لوگوں کو نیب کا اتنا خوف نہیں جتنا اس کی طاقت کا خوف ہے۔ یعنی ایک ادارے کے پاس یہ طاقت ہے کہ چاہے بے شک اس کے پاس ثبوت نہ ہو وہ دن رات صبح شام کبھی بھی، کہیں بھی آپ کو گرفتار کر سکتی ہے۔ کیا اس سے انسان کو خوف نہیں آئے گا؟
چغلی تک بات پہنچنے کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ تاجروں کو نظر آ گیا ہے کہ حکومت کے پاس پیسے ختم ہو گئے ہیں اور ان کے پاس کوئی حکمتِ عملی بھی نہیں ہے، تو اس سے کساد بازاری یعنی recession کا خطرہ ہے، جس سے سب کے سب متاثر ہوں گے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ چغلی خان صاحب کے خلاف نہیں لگائی گئی۔ کیونکہ اگر یہ چغلی خان صاحب کے خلاف ہوتی تو اور کئی طریقے تھے اپنے گلے شکوے دور کرنے کے جیسا کہ پریس کانفرنس وغیرہ۔
اصل بات تو یہ ہے کہ تاجروں نے براہ راست آرمی چیف سے انہی کے خلاف شکایت کر ڈالی۔ اس چغلی نما شکایت کا متن کچھ یوں تھا کہ خدا کا واسطہ ہے کچھ کیجیے۔ اس ایک آہ میں ہزاروں گلے شکوے تھے۔ یہ تو اب سمجھنے والے پہ منحصر ہے کہ وہ سمجھنا چاہتا ہے یا نہیں۔
اس چغلی کو لگانے کا کوئی اور طریقہ بھی نہیں تھا چونکہ ہمارے آئین کی کچھ شقیں جو نظر نہیں آتیں، ان کے مطابق ہر وہ شخص غدار ہے جو یہ شکایت کرے۔ چاہے وہ کسی قسم کی شکایت ہی کیوں نہ ہو۔ اگر آپ کا بھائی مِسنگ ہے تو عافیت اسی میں جانیے کہ اس کو بھول جانا ہی بہتر ہے، ہر وہ شخص غدار ہے جو شکایت کرے کہ دھماکے میں اس کا بھائی مارا گیا، ہر وہ شخص غدار ہے جو اپنے حق کی بات کرے، اور ہر وہ شخص جو فریاد کرے، ہماری ریاست کے مطابق وہ بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ اس لئے اگر آپ کے پاس کھانے کو روٹی نہیں، پہننے کو کپڑا نہیں، کسی دہشت گردی کے واقعے میں بچہ مارا گیا ہے وغیرہ وغیرہ تو خبردار جو اُف تک کی۔ بس جو ہو چکا وہ ہو چکا۔
اگر آپ سے بالکل صبر نہیں ہو رہا تو ایک وفد آرمی چیف کے پاس لے جائیں اسی انداز میں جس انداز میں تاجر لے گئے۔ اس سے ایک تو آرمی چیف کی بھی خوشنودی ہو جائے گی کہ چلو آخر لوگوں کو سمجھ آ ہی گئی کہ اصل گُروُ کون ہے اور دوسرا یہ کہ بغیر غدار کہلائے، آپ کا پیغام تو کم از کم پہنچ جائے گا۔ اس سے آپ کا مسئلہ تو شاید حل نہ ہو لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ دل کی بات کہہ دینے سے کم از کم دل تو ہلکا ہو جاتا ہے۔ اس لئے فلحال محض دل ہلکا کرنے پر اکتفا کیجیے۔
چند الفاظ ان لنگر خانوں کے نام جس کا افتتاح وزیراعظم پاکستان نے ابھی ابھی چند دنوں پہلے کیا۔ خان صاحب کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ وہ تو ورلڈ کپ جیتنے کے بعد سے لنگر ہی کھا رہے ہیں۔ لنگر صرف روٹی کی صورت میں تو نہیں ہوتا۔ ان کی ساری کی ساری ضروریات لنگر ہی سے پوری ہوتی ہیں۔
جیسا کہ خاتونِ اول نے ندیم ملک کو بتایا تھا کہ چونکہ وہ خود تو نہ کپڑے خریدتے ہیں اور نہ سلواتے ہیں اسی لئے لوگ سِلے ہوئے کپڑے خان صاحب کو تحفے میں دیتے ہیں۔ وزیراعظم کی کرسی بھی ان کو لنگر کی صورت میں دی گئی، جس طرح لنگر کے کھانے میں ناشکری نہیں کرنی چاہیے اسی طرح لنگر میں جو بھی وزیراعظم ملے اسے قبول کر لیجیے۔ زیادہ گلے شکوے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے بعد جو آئے گا وہ بھی انہی کی مانند ہو گا۔ جس آئیڈیل وزیراعظم کی اُن کو تلاش ہے کہ جو ہر بات بھی مانے اور ملک میں ترقّی بھی ہو، اس کو محض خیالات میں تخلیق کیا جا سکتا ہے۔
ازراہ تفنن