آئندہ سال سے پاکستان میں صرف حکومتی منظور شدہ پنکھے چلیں گے

آئندہ سال سے پاکستان میں صرف حکومتی منظور شدہ پنکھے چلیں گے
وفاقی وزیر برائے سائنس وٹیکنالوجی شبلی فراز نے کہا ہے کہ آئندہ سال سے ملک بھر میں صرف حکومت کی جانب سے منظور شدہ پنکھے ہی فروخت کرنے کی اجازت ہو گی۔ یہ اقدام بجلی بچانے کیلئے اٹھایا گیا ہے۔ وزارت سائنس پنکھوں کے معیار کی نگرانی کرے گی۔

یہ بات انہوں نے کمیٹی برائے سائنس وٹیکنالوجی میں بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں 10 کروڑ پنکھے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ اگر ان کا معیار اعلیٰ ہو تو روزانہ 2 غازی بروتھا ڈیموں جتنی بجلی اور تقریباً 4 ارب ڈالر سے زیادہ کی بچت ہو سکتی ہے۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تیار کئے جانے والے پنکھے زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں، اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ توانائی کی بچت کیلئے 2022ء سے حکومت کی جانب سے منظور شدہ پنکھے ہی فروخت اور استعمال کئے جا سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کی آگاہی کیلئے سٹار ریٹنگ کا نظام متعارف کروائے گی جس سے پتا چل سکے گا کہ کون سا پنکھا کیوں مہنگا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پنکھوں میں استعمال ہونے والی جدید الیکٹرک پلیٹ کی درآمد کیلئے وزارت تجارت سے ڈیوٹی ختم کرنے کی درخواست کی گئی ہے، امید ہے اس پر جلد کام مکمل ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت پاکستان میں ناقص میٹریل سے بنے تقریباً 10 کروڑ پنکھے عوام کے زیر استعمال ہیں، یہ پنکھے زیادہ بجلی کھینچتے ہیں جبکہ پانی کی موٹریں بھی زیادہ بجلی استعمال کرتی ہیں۔

وفاقی وزیر برائے سائنس وٹیکنالوجی نے کہا کہ درآمدی ڈیوٹی میں چھوٹ ملنے سے 3400 سو میگا واٹ بجلی کی بچت کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر پانی کی موٹریں بھی معیاری میٹریل سے بنی ہوں تو ان سے 5000 میگاواٹ بجلی بچائی جا سکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ موسم گرما میں ہمارا سسٹم 24 ہزار میگاواٹ بجلی پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ موسم سرما میں کھپت 8 ہزار میگاواٹ تک ہوتی ہے۔ 16 ہزار میگا واٹ بجلی ملک میں کولنگ کیلئے خرچ ہوتی ہے۔ اس لئے اگر کولنگ کے آلات بجلی بچانے والے ہوں تو پاکستان کو بجلی کی مد میں بہت بچت ہو گی۔