سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس، تمام ڈیکسوز سے رپورٹ طلب

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس، تمام ڈیکسوز سے رپورٹ طلب
رپورٹ: (عبداللہ ملک) ایوان بالا ء کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فدا محمد کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں حال ہی میں پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والے آئیسکو کے بلنگ ڈیپارٹمنٹ میں کروڑوں روپے مالیت کے مبینہ غبن کے بارے میں بریفنگ کے علاوہ ٹیسکو اور کیسکو کی بجلی کی طلب اور رسد کی پوزیشن، فیڈر وائز لائن لاسز/چوری اور اس کے نتیجے میں صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

سی ای او آئیسکو شاہد اقبال چوہدری نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ آئیسکوسٹاف لوگوں سے مل ملا کر بل کی جعلی وصولی کرتے تھے۔ منیجر سی ایس کو ایک صارف بابر نواز نے بل کی ادائیگی کی تصدیق کے لئے 27جون 2019کو فون کیا جسکا بل 15لاکھ 93ہزار بینک آف پنجاب بلیو ائریا برانچ اسلام آباد میں جمع کرایا گیا تھا معاملہ کی تصدیق کیلئے سی ایس او کو بھیجا گیا ابتدائی طور پر رقم کی تصدیق کی گئی اُسی رقم کا کتابچہ سی ایس او دفتر میں موجود تھا بعداز ں منیجر سی ایس نے متعلقہ افسر کو بینک سے تحریر طور پر تصدیق کرانے کیلئے کہا تو بینک نے کتابچہ کو جعلی قرار دیا اور کہا کہ یہ اس بینک کا نہیں ہے۔ آئیسکو کے ملازمین لوگوں سے بل وصول کر کے جعلی مہریں لگا کر دیتے تھے۔

27جون 2019کو ایک دن میں 4.3 کروڑ کا فراڈ کیا گیا۔ محکمے نے ایک کمیٹی بنائی جس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سالوں کے دوران 293 ملین روپے کے فراڈ کیے گئے جس میں آئیسکو کے سی ایس او محمد نعیم، کمرشل اسسٹنٹ خالد محمود، اکاؤنٹس اسسٹنٹ محمد رفیق، خاکروب وقاص جاوید اور ایک پرائیویٹ بندہ گل جمال خطاب سمیت کئی لوگ ملوث تھے۔ 12لوگوں کو معطل اور دو کو نوکری سے نکالا گیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ معاملہ فوری طور پر ایف آئی اے کو ریفر کیا گیا اور اُن کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ 239 ملین روپے میں سے 95.41ملین روپے ریکور کر لیے ہیں۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے سخت برہمی ک اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ادارے میں تین سال سے فراڈ کیا جارہا ہے ذمہ داران نے اس پر توجہ کیوں نہیں کی باقی ڈیسکوز کے معاملات میں بے شمار چیزیں سامنے آرہی ہیں، کرپشن کے ناسور کو ختم کرنے کیلئے مؤثر حکمت عملی اختیار کی جائے اور ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ جس پر ایڈیشنل سیکرٹری وزارت پاور نے کمیٹی کو بتایا کہ تمام ڈیسکوز کے اسپیشل فنڈز اور کتابچوں کے آڈٹ کی ہدایت کر دی گئی ہے۔

سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ پیسکو، فیسکو اور دیگر ڈیسکوز کے ریکارڈ بھی چیک کرنے کیلئے وزارت خط لکھ کر رپورٹ حاصل کرے اور اس پرائیوٹ آڈٹ کمپنی کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے جس نے آئیسکو کا آڈٹ کیا تھا۔ آئندہ اجلاس میں اے جی آفس بھی کمیٹی کو بریف کرے اور بہتری کیلئے وزارت بجلی سسٹم کو ڈیجیٹل سسٹم پر منتقل کرے اور پرال سسٹم کی طرز پر لاگو کرے۔ قائمہ کمیٹی نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران تمام ڈیسکوز میں آنے والے کیسز اور افغان پناہ گزین کیمپوں کے اکاؤنٹس کے فنڈز کی تفصیلات کے حوالے سے اگلے اجلاس میں رپورٹ طلب کر لی۔

سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ ایک بیوہ عورت کو بجلی کے کنکشن کیلئے کئی بار آئیسکو کے حکام کو فون کر چکا ہوں مگر ایک سال گزرنے کے باوجود بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو عام عوام کے ساتھ کیسا سلوک ہو گا۔ ٹیسکو اور کیسکو میں بجلی کی طلب اور رسد کی پوزیشن کے حوالے سے کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹیسکو میں نارمل بجلی کی طلب 708 میگا واٹ اور سپلائی204 میگاواٹ ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ طلب 799 اور سپلائی 364 میگاواٹ رہی ہے۔ٹیسکو 7 قبائلی ایجنسیوں اور6 فرنٹیئر کانسٹیبلری علاقوں کو کور کرتا ہے۔52 لاکھ کی آبادی کو بجلی سپلائی کی جاتی ہے۔ رجسٹرڈ صارفین4.42 لاکھ ہیں۔32 آزاد فیڈرز ہیں ہمارے 19 گرڈ اسٹیشن ہیں۔80 فیصد گھریلو بجلی صارفین ہیں۔ بلنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت 18 ارب کی سبسڈی فراہم کر رہی ہے۔صنعت اور کمرشل کنکشن میٹرز پر ہیں باقی بغیر میٹر کے ہیں۔ حکومت نئے6 گرڈ اسٹیشن اور 70 فیڈرز بنائے گئی۔انفراسٹرکچر پر کافی زور دیا جارہا ہے۔سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے جس میں ان علاقوں کی عوام کیلئے رعائتی بجلی فراہم کی جائے اور علیحدہ ٹیرف مقرر کیا جائے۔ قائمہ کمیٹی نے سابق فاٹا اور پاٹا کے علاقوں میں سیلز ٹیکس نہ لگانے کی سفارش بھی کر دی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹیسکو نے پہلی دفعہ 4 بجلی چوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔کیسکو حکام نے قائمہ کمیٹی کو بجلی کی طلب، رسد، بجلی چوری اور بہتری کیلئے اٹھائے گئے اقدامات بارے تفصیلی آگاہ کیا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کیسکو میں 641 فیڈر ہیں جن میں سے زراعت کے حوالے سے 347 گھریلو، کمرشل اور صنعتی177 ہیں جبکہ دیہی علاقوں کے ڈومیسٹک فیڈرز کی تعداد112 ہے۔74 فیصد بجلی زرعی صارفین استعمال کرتے ہیں اور مواصلاتی نظام میں رکاوٹ کے باعث 130 سے150 میگاواٹ تک ریکارڈ نہیں کیا جا سکا۔