اسلام آباد: ملک میں جبری گمشدگیوں پر کام کرنے والے کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 کے جنوری تا اگست کے آٹھ مہینوں میں کمیشن کو جبری گمشدگیوں کے 1201 نئے کیسز موصول ہوئے ہیں۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے مہینے میں جبری گمشدگیوں کے کمیشن کے پاس ریکارڈ 714 نئے کیسز درج ہوئے جبکہ مئی کے مہینے میں 145 اور فروری کے مہینے میں 144 کیسز درج ہوئے۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کی نسبت اس سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں کمیشن کےپاس سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے۔
کمیشن سے حاصل کئے گئے ڈیٹا کے مطابق سال 2016 میں کمیشن کے پاس جبری گمشدگیوں کے 782، سال 2017 میں 868، سال 2018میں 1098 سال 2019 میں 800 جبکہ سال 2020 میں 415 کیسز موصول ہوئے تھے۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کی نسبت اس سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں جبری گمشدگیوں کے سب سے زیادہ کیسز کمیشن کو موصول ہوئے۔
کمیشن کے مطابق کمیشن کو اب تک 8122 کیسز موصول ہوئے ہے جن میں 5853 کیسز پر کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ کمیشن کے پاس درج 2269 لوگوں کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا ۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کمیشن کے پاس درج کئے گئے کیسز میں 3088 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں ، جبری طور پر گمشدہ 911 اافراد فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مراکز میں قید ، 571 افراد مختلف جیلوں میں قید ،جبکہ 225 افراد کی لاشیں ملی۔ کمیشن کے مطابق اپنے گھروں کو واپس لوٹنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد بلوچستان کے رہائشیوں کی ہے اور اب تک970 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر پنجاب ہے جہاں 718 افراد جبکہ خیبرپختونخوا کے 515 افراد اپنے گھرو ں کو واپس لوٹ چکے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں قید قیدیوں میں سے سب سے زیادہ تعداد خیبر پختونخوا کے شہریوں کی ہے جہاں فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مراکز میں 757 افراد خیبر پختونخوا کے قید ہیں۔ کمیشن کے دستاویزات کے مطابق کمیشن کے پاس درج ہونے والے کیسز میں سے 225 افراد کی لاشیں ملی ہیں جن میں زیادہ تعداد(آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے) پنجاب کی ہے جہاں جبری طور گمشدہ کئے گئے 67 افراد کی لاشیں ملی ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر خیبرپختونخوا ہے جہاں سے 61 لوگوں کی لاشیں ملی۔
اعداد و شمار کے مطابق کمیشن نے گزشتہ چھ سالوں میں درج کئے گئے کیسز میں سے 1058 ایسے کیسز کو خارج کیا جو خاندان والوں نے جبری گمشدگیوں کے طور پر درج کئے تھے مگر وہ اپنے مرضی سے گھر چھوڑ چکے تھے۔