پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کو نااہلی اور گرفتاری کے متعدد خدشات کا سامنا ہے۔ 21 اگست کو حکومت نے ان کے خلاف انسدادِ دہشتگردی کا مقدمہ بنایا اور یکم ستمبر کو انہیں ضمانت مل گئی۔ ساتھ ساتھ 22 ستمبر کو ان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہینِ عدالت کے کیس میں فردِ جرم بھی عائد ہونے جا رہی ہے۔
انہوں نے حال ہی میں مجھے اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کی دعوت دی۔ میں عمران خان کو 30 سال سے جانتا ہوں اور میں متجسس تھا کہ وہ اپنے سیاسی کریئر کے اگلے مرحلے کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ معمول کے کپڑے پہنے ہوئے وہ ذہنی اور جسمانی طور پر بالکل فٹ نظر آ رہے تھے۔
بات چیت کے دوران انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ 2018 کے انتخابات میں کیے گئے بہت سے وعدے اپنے دورِ حکومت میں پورے نہیں کر سکے تھے۔ انہوں نے اپنی ناکامیوں کی توجیہات پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہ بنیادی طور پر اس کا ذمہ دار پارلیمان میں اپنے ارکان کو ٹھہرا رہے تھے جو ان کے بقول ان کے قابو میں نہیں تھے۔ انہوں نے اس حقیقت سے انکار کیا کہ انہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں لایا گیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ گذشتہ الیکشن میں ان کے خلاف دھاندلی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ انٹیلیجنس اداروں نے آزاد امیدواروں کی حمایت کی جنہوں نے ان کے پارٹی امیدواروں کو شکست دی: "بعد میں مجھے انہی آزاد امیدواروں کی مدد سے حکومت بنانی پڑی جو انٹیلیجنس اداروں کے قابو میں تھے؛ اور انہوں نے ہی مجھے آخر میں دھوکہ دیا"۔
عمران خان نے تسلیم کیا کہ ان کی حکومت انتہائی کمزور تھی اور اسے پارلیمان سے بجٹ پاس کروانے کے لئے بھی انٹیلیجنس اداروں کی مدد لینا پڑتی تھی۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ اپنے سابق انٹیلیجنس چیف جنرل فیض حمید پر حد سے زیادہ انحصار کر رہے تھے۔ جب جنرل فیض نے اپنی مدت مکمل کر لی اور ان کا تبادلہ پشاور کیا گیا تو عمران خان نے اس عمل میں تاخیر کرنے کی کوشش کی۔ "یہیں سے شروعات ہوئی"، انہوں نے مجھے بتایا، اور کہا کہ اس واقعے کے بعد ان کے فوج سے تعلقات خراب ہو گئے۔
انہوں نے فوج کے ساتھ اپنے اختلافات کی دیگر وجوہات بھی بیان کیں۔ "میں چین کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا تھا اور میں نے امریکہ کے ساتھ سخت لائن لی – لیکن فوج نے مجھے کہا کہ امریکہ کے ساتھ نرمی سے بات کریں"۔ حیرت انگیز طور پر انہوں نے اس پورے مکالمے میں امریکہ کو اپنی حکومت گرانے کا کہیں ذمہ دار قرار نہیں دیا۔ وہ اب واشنگٹن سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اس کے لئے انہیں غیر ملکی سازش کی باتیں ذرا روکنا ہوں گی۔
ایک اور وجہ ان کا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں سخت لہجہ تھا۔ عمران خان کے مطابق فوج چاہتی تھی کہ وہ مودی کو ناجائز طریقے سے ہدفِ تنقید نہ بنائیں کیونکہ اس سے بیک چینل سفارتی کوششیں اثر انداز ہوں گی۔ (جب میں نے پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار سے عمران خان کے دعوے بارے پوچھا تو انہوں نے اسے غلط قرار دیا اور کہا کہ فوج نے عمران خان کو مودی کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے کبھی نہیں روکا۔)
ہماری بات چیت کے دوران عمران خان نے فروری میں اپنے ماسکو کے دورے کا بھی ذکر کیا جب یوکرین پر حملہ ہو ہی رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دورہ فوجی قیادت کے مکمل اتفاق سے کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ روس ان کے دورے کے وقت ہی یوکرین پر حملہ کر دے گا۔ عمران خان نے مجھے اپنی روسی صدر پوتن کے ساتھ تین گھنٹے کی ملاقات کے بارے میں بھی بتایا جس میں ان دونوں نے ایک گیس پائپ لائن منصوبے پر بات چیت کی۔ "پوتن کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں، لیکن ان کی اہلیہ مسلمان ہیں"، عمران خان نے کہا۔
اس بیان نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ پوتن نے اپنی پہلی اہلیہ لیوڈمیلا کو کئی سال قبل طلاق دے دی تھی۔ شاید عمران خان علینہ کابیوا کی بات کر رہے تھے جو کہ ازبکستان کے ایک نصف مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ ایسی افواہیں عام رہی ہیں کہ وہ پوتن کی گرل فرینڈ ہیں لیکن عوامی سطح پر کبھی ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے شادی کر چکے ہیں۔
عمران خان نے اپنے قریبی ساتھی شہباز گل پر ہوئے تشدد کے خلاف آواز اٹھانے پر میرا شکریہ ادا کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ جب وہ وزیر اعظم تھے تو بہت سے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کو ایسے ہی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عمران خان نے اس کی تردید کی اور کہا کہ انہوں نے کبھی کسی صحافی پر حملے یا اس کی زباں بندی کے احکامات نہیں دیے۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ اس کے باوجود بھی وہ بطور وزیر اعظم اپنے ماتحت لوگوں کے جرائم کے لئے بھی قابلِ احتساب تھے جن کو وہ ان جرائم کی سزا ضرور دے سکتے تھے۔ مثال کے طور پر ان پر کڑی تنقید کرنے والے صحافی ابصار عالم کو جب گولی لگی تو اس پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا۔ حیران کن طور پر انہوں نے اس واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بحران کا اصل حل ایک جلد الیکشن ہی میں مضمر ہے۔ وہ واضح طور پر پرامید تھے کہ نومبر سے پہلے چیزیں تبدیل ہوں گی۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ وہ وزیر اعظم شہباز شریف سے زیادہ طاقتور ہیں جو صرف اسلام آباد کے حکمران ہیں جب کہ عمران خان کی پارٹی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے دو صوبوں میں برسرِ اقتدار ہے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ فارن فنڈنگ کے کیس میں نااہل ہو سکتے ہیں لیکن اگر وہ گرفتار ہوئے تو ان دونوں صوبائی حکومتوں کو وہ وفاقی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کریں گے۔ ان کے جانثار اسلام آباد پر قبضے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
عمران خان یقیناً جیت سکتے ہیں۔ لیکن وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔ پاکستان اس سے قبل ایک موجودہ وزیر اعظم کو مجرم قرار پاتے اور ایک وزیر اعظم اور دو وفاقی وزرا کو نااہل ہوتے دیکھ چکا ہے۔ عمران خان کے ساتھ بات چیت میں مجھے یہی تاثر ملا کہ وہ اس کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس پر نظرِ ثانی کریں گے – ملک کی خاطر۔
پاکستان اس وقت سیلاب کی صورت میں ایک بحران سے گزر رہا ہے اور سینکڑوں جانیں اس میں ضائع ہو چکی ہیں۔ یہ سیاسی احتجاج کے لئے مناسب وقت نہیں ہے۔
حامد میر کا یہ کالم واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔
حامد میر پاکستان کے مایہ ناز صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن ہیں۔ وہ واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتے ہیں۔