علمدار روڈ، اور چوڑیوں کے ٹھیلوں والا قبرستان

علمدار روڈ، اور چوڑیوں کے ٹھیلوں والا قبرستان
1994 جون کا مہینہ تھا، پھلوں اور سبزیوں کے بازار کے بیچ سے ہماری ٹیکسی جب علمدار روڈ پہ مڑی تو سامنے ہلکے نیلے آسمان کے پس منظر میں قدآور بنجر پہاڑ سڑک کے ایک جانب کسی دیو کی مانند کھڑے نظر آئے۔ نہ جانے ان پہاڑوں نے کیسے کیسے مناظر دیکھنے تھے کہ جب یہ پہاڑ اور اس کہ دامن میں بسنے والے پہاڑ صفت لوگ جن کے حوصلے آگ و خون کی ہولی کھیل کے تو کبھی اپنے بچوں کو بہشت زھرہ قبرستان کی آغوش میں سلا کے بھی متزلزل نہ ہوں گے۔

محرم کا مہینہ اس سال جون میں آیا تھا۔ کراچی سے تافتان بارڈر تک کا راستہ طویل تھا لہٰذا ہمارے خاندان نے، جو کہ ایران کہ شہر مشہد میں موجود روضہ امام رضاؑ کے در پہ حاضری کے لئے نکلا تھا، کوئٹہ میں واقع علمدار روڈ پہ موجود امام بارگاہ میں آرام کے لئے کچھ وقت گزارا تھا۔



راستے بھر میرا ذہن ایک الجھن کا شکار رہا۔ کوئٹہ کی  دیواروں پر میں نے " کافر کافر شیعہ کافر" لکھا دیکھا۔ کہیں ایران اور انقلاب ایران اور  وہاں کے سربراہوں کے خلاف نعرے لکھے نظر آئے۔

جب کبھی ذہن میں وہ مناظر تازہ ہو جاتے ہیں تو جون ایلیا کی کہے ہوئے وہ جملے فوراً کانوں میں گونجنے لگتے ہیں کہ

"اگر دیواریں ذی روح ہوتیں تو اپنے ہی سینے پر لکھے زہریلے نعروں کے اثر سے ہلاک ہو جاتیں"


مجھے نہیں معلوم کہ لڑکپن کے اس دور میں جب کہ آنے والے حالات و واقعات کا علم نہیں تھا اور نہ ہی مذہبی اختلافات و فرقہ واریت جیسے عنوانوں سے کوئی لگاؤ تھا، اس سڑک پر ایک سکون سا محسوس ہوتا تھا۔ علمدار نام سے انسیت کہ باعث مظلومیت کا عنصر ہمیشہ اس جگہ اس شہر اس مقام کی یاد سے منسوب رہا۔



آج اتنے سال گزر جانے کے بعد میں سوچتی ہوں کہ شاید وہ پھل والے، وہ سبزی والے اور وہ لوگ جن کے ساتھ میرے خاندان نے علمدار روڈ پر وقت گزارا، شاید آج وہ ہم میں موجود نہ ہوں، شاید وہ بھی فرقہ واریت اور نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے ہوں۔

کہتے ہیں کوئٹہ میں  موجود ہزارہ کا قبرستان کوئی قبرستان نہیں لگتا۔ وہاں کتنے ہی ماؤں کے لعل زیرِ زمین  سو رہے ہیں، عید کے دن وہاں چوڑی والے چوڑیوں کے سٹال لگاتے ہیں، تاکہ مرنے والے اپنے پیچھے رہ جانے والے خالی ہاتھوں میں چوڑیاں دیکھ کر خوش ہو جائیں، کچھ بزرگ چہل قدمی کرتے ہوئے اپنے بیٹوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھ دیتے ہیں۔ مائیں اکثر کھانا بنا کر لے جاتی ہیں کہ اپنے بچوں کے نام کی فاتحہ پڑھ لیں۔

کچھ بچے قبرستان کے قریب فٹبال کھیلتے نظر آتے ہیں تاکہ قریب سوئے ہوئے، بچھڑے دوستوں کو اکیلا پن محسوس نہ ہو۔



یہ قبرستان کوئٹہ میں بسنے والی ہزارہ برادری کے لئے زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے جسے وہاں کہ بسنے والوں نے سینے سے لگا رکھا ہے۔

2013 سے 2017 کے بیچ 600 سے زائد ہزارہ بچے، بوڑھے اور جوان نسل کشی کا نشانہ بن چکے ہیں اور کتنے ہی ہزارہ خاندان اجڑنے کہ بعد بیرون ملک جا بسے ہیں۔

علمدار روڈ پر آج بھی امام بارگاہ ہیں لیکن شاید اب کوئی گزرنے والا آرام کی غرض سے اس سڑک کا رخ نہیں کرتا۔ پھل والے آج بھی پھلوں کی ریڑھیاں لگاتے ہیں لیکن دل میں کہیں اس بات کا کھٹکا لیے کہ کہیں کوئی دین کا علمبرداد کافر سمجھ کر ان پر گولیاں نہ برسا جائے۔ ہلکے نیلے آسمان کے پس منظر میں آج بھی بلند و بالا چٹیل اور اونچے پہاڑ سر اٹھائے کھڑے ہیں، لیکن شاید اگر روح رکھتے تو چھلنی ہو کر گر پڑتے۔ ہزارہ نسل کشی آج بھی جاری ہے اور اہل وطن اس بہتے لہو پر آج بھی خاموش!