Get Alerts

تحریک لبیک پھر سڑکوں پر: 'یہ لوگ مکمل منظم اور مربوط منصوبہ بندی سے آئے'

تحریک لبیک پھر سڑکوں پر: 'یہ لوگ مکمل منظم اور مربوط منصوبہ بندی سے آئے'
میں اس وقت رائے ونڈ روڈ پر ایک محل نما گھر میں موجود تھا۔ ہم ایک میڈیا انڈسٹری کے معروف نام کے ساتھ میٹنگ میں شریک تھے۔ وہاں میرے واٹس ایپ پر صحافیوں کے متعدد خبریں شیر کرنے والے گروپوں میں مولانا خادم رضوی کے بیٹے سعد رضوی کی گرفتاری کی خبریں چلنی شروع ہو گئیں۔ میں نے وہاں موجود افراد کو جب یہ خبر سنائی تو اس میڈیا انڈسٹری کے معروف نام کا کہنا تھا یہ خوامخواہ ہیرو بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس معروف نام کی ہمدردیاں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ہیں۔ مگر ان کا کہنا تھا یہ سب کچھ عمران خان کی حکومت کے خلاف ایک سازش ہے ۔ خیر میٹنگ کے خاتمے پر پرتکلف کھانے کے بعد جب سات بجے تک رائے ونڈ روڈ پر نکلے تو میدان سج چکا تھا۔ تحریک لبیک کے کارکنوں نے دھرنے دے کر ٹریفک بلاک کر دی تھی۔ پولیس اور کارکنوں کے درمیان گالم گلوچ ہاتھا پائی شروع ہو چکی تھی۔ تھانوں میں غریبوں لاچاروں مظلوموں پر ظلم کرنے والے پولیس اہلکار تحریک لبیک کے کارکنوں کے سامنے بھیگی بلی بنے ہوئے تھے اور ان سے مار کھا رہے تھے۔ ہم وہاں سے اپنے ویب ٹی وی کے فیس بک پیج سے لائیو ہوگئے اور رپورٹنگ شروع کر دی۔ جس میں پولیس کی درگت کو دکھایا گیا۔

مجھے معروف صحافی مرحوم آصف علی پوتا بہت یاد آے وہ کہتے جب بھی اصل پولیس مقابلہ ہوتا ہے تو پولیس والوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ جب جعلی پولیس مقابلے ہوتے ہیں تو ڈاکو مارے جاتے ہیں۔ خیر رائے ونڈ روڈ پر جب ہم ٹھوکر کی طرف پہنچے تو وہاں تحریک لبیک کے کارکنوں سے ہماری تکرار شروع ہو گئی ان کا کہنا تھا تم میڈیا والے غدار ہو۔ ہماری خبریں نشر نہیں کرتے۔

طویل تکرار کے بعد وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ سارا لاہور تحریک کے کارکنوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا تھا۔ یوں لگ رہا تھا شہر پر تا تاریوں نے حملہ کر دیا۔ پولیس خاموش تماشائی بنی سب دیکھ رہی تھی۔ دو ٹریفک وارڈنز کی داد دوں گا وہ شوکت خانم ہسپتال کی طرف ٹریفک چلانے میں کامیاب ہو گئے اس رات ہم شہر بھر میں پھرتے رہے۔ ملتان روڈ چونگی امر سدھو شاہدرہ مال روڈ ڈیوس روڈ گڑھی شاہو پل جلو موڑ پر جگہ رش تھا ٹریفک بلاک تھی ریاست کہاں تھی؟ یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ کئی بار ایسا ہو چکا ہے۔ تحریک لبیک والے جب دل کرتا ہے سڑکوں پر آجاتے ہیں اور ٹرانسپورٹ بند کر دیتے ہیں۔

ایک چیز جو پچھلے چند واقعات کے بعد مشاہدہ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ مکمل منظم اور مربوط منصوبہ بندی سے آتے ہیں۔ ہر شہر کے کارکنوں کے پاس اس شہر کے تمام داخلہ راستوں کی تفصیلات ہوتی ہیں اور ٹریفک کا بہاؤ روکنے کی مکمل پلاننگ کے تحت آتے ہیں۔ ان کا رویہ پولیس اور میڈیا کے ساتھ ہتک آمیز ہوتا ہے۔ وہ ذہنی طور تیار آتے ہیں کہ میڈیا اور پولیس کے ساتھ جھگڑا ہو،اب سعد رضوی گرفتار ہیں۔

ملک بھر کی اہم سڑکوں پر رینجرز آچکے ہیں۔ کل وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کے درمیان میٹنگ میں بھی بہت کچھ طے ہوا ہے اب تک حکومت سعد رضوی کو رہا کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آرہی۔ جبکہ شہر کے داخلہ راستوں پر اب بھی تحریک لبیک کے کارکنوں نے دھرنے دیے ہوئے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ سعد رضوی کو رہا کیا جائے۔

دوسری طرف بین الاقوامی میڈیا پر اس واقعے کی خوب کوریج کی گئی ہے پاکستان ابھی تک گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا اقوام متحدہ کی طرف سے مزید اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے برطانیہ نے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا. جو منی لانڈرنگ کرتے ہیں اور انکے لیڈر بیرونی ممالک میں اثاثے بناتے ہیں ،یہ بھی ہمارے ماضی کے حکمرانوں کا ایک تحفہ ہے جو اس وقت ڈھٹائی سے برطانیہ میں ہی رہائش پذیر ہیں اور وہاں پر ان فلیٹوں میں مقیم ہیں جن کی ملکیت سے وہ عدالت میں انکاری تھے۔ ہماری ہیت مقتدرہ اور کرپٹ حکمرانوں کے اعمال آج ہمارے سامنے ہیں شدت پسندی اور انتہا پسندی آج ہمارے گلے کا پھندا بن چکی ہے اور ہماری جان رفتہ رفتہ نکل رہی ہے۔ حرف آخر حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی عائد کر کے درست فیصلہ کیا ہے امید ہے اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔